جعلی مزدور اور جعلی صحافی


ہر سال یکم مئی کو مزدوروں کا عالمی دن اور ہر 3 مئی کو صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی مختلف موضوعات پر ہر سال عالمی دن منائے جاتے ہیں جن میں خواتین کا دن، ماں کا دن، باپ کا دن، زمین پانی و دیگر کئی موضوعات شامل ہیں۔ یہ ایک بہت اچھا اور مثبت عمل اور اچھی روایت ہے۔ ایسے دن یا ایّام کے منانے سے ان موضوعات کے حوالے سے حقائق جاننے اور اصلاح کرنے کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے۔ جن کے ماحول اور معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ مئی کے مہینے میں مزدوروں صحافت اور ماٶں کے عالمی دن منائے جاتے ہیں۔ بقول نواب اسلم رئیسانی ڈگری ڈگری ہوتی ہے وہ اصلی ہو یا نقلی۔ ہمارے ذہن میں بھی اکثر یہ خیال آتا ہوگا کہ مزدور مزدور ہوتا ہے صحافی صحافی ہوتا ہے ماں ماں ہوتی ہے وہ اصلی ہو یا جعلی۔ لیکن اصل اور نقل میں فرق کرنا لازمی بھی ہے اور انصاف کا تقاضا بھی۔ ورنہ اصل اور نقل کو ایک سمجھنے سے انسان اور معاشرے کا بڑا نقصان ہوتا ہے اور اس میں جھوٹ اور دھوکہ دہی کو فروغ ملتا ہے۔ جھوٹے پر اللّٰہ تعالیٰ نے لعنت بھیجا ہے اور جھوٹ ہی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔

دھوکہ دہی کے بارے میں حدیث مبارکہ ہے کہ جس نے کسی کے ساتھ دھوکہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اور جس کے بارے میں نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان ہو تو اس انسان کی بربادی واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن افسوس اس وقت بھی ہوتا ہے جب تعلیم کے شعبے سے وابستہ استاد لیکچرر ہوتا ہے مگر جھوٹ بولتے ہوئے خود کو پروفیسر کہلاتا ہے یہاں تک کہ وہ ریٹائر بھی لیکچرر کی حیثیت سے ہوتا ہے مگر پھر بھی خود کو پروفیسر ہی لکھتا اور کہلاتا ہے۔ جب ایک استاد ہی تمام عمر جھوٹ بولتا اور لکھتا رہا تو اس کے اس کذب اور جھوٹ کے خود اس کی ذات پر اس کے شاگردوں پر اس کے خاندان پر اور معاشرے پر کس طرح منفی اثرات مرتب ہوتے ہوں گے؟

طب یا صحت کے شعبے سے وابستہ افراد جن میں ڈسپنسر میڈیکل ٹیکنیشن نرسنگ اردلی اور وارڈ بوائے وغیرہ بھی خود کو ڈاکٹر کہلائے تو اس معاشرے اور سماج کی کیا صورتحال ہوگی؟ یہ بھی ہم دیکھ رہے ہیں۔ ایسی دیگر کئی مثالیں ہیں جس کی وجہ سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اصل جج اصل وکیل اصل سیاستدان اصل سائنسدان اصل سپاہی اصل سپہ سالار اصل عالم و فاضل اور اصل مولوی اور مولانا و مفتی وغیرہ کی پہچان کیسے اور کس طرح کریں یہ وہ سوال اور وہ مسئلہ ہے جس پر ہمیں سنجیدگی سے سوچنے اور غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ اصل مزدور وہ ہے جو سردی ہو یا گرمی، مشکل ہو یا آساں، وہ اپنے فرائض نیک نیتی اور پوری دیانتداری کے ساتھ سر انجام دیتا ہے اور اس کی یہ محنت عبادت بھی بنتی ہے اور حلال رزق کا باعث بھی بنتی ہے۔ ایسے ہی مزدور کے لئے مشہور حدیث مبارکہ ہے کہ الکاسب حبیب اللّٰہ یعنی محنت کرنے والا اللّٰہ کا دوست ہے۔ یہ اس انسان اور اس مزدور کے لئے کتنا بڑا اعزاز ہے اور کتنی بڑی کامیابی ہے جس کو اللّٰہ تبارک و تعالیٰ اپنا دوست بناتا ہے۔ گزشتہ یکم مئی کو ڈیرہ مراد جمالی میں مزدوروں کے حوالے سے مستری مزدور یونین کا ایک جلسہ ہوا۔ اس یونین کے صدر ہارون الرشید عرف لیاقت چکھڑا نے جلسے سے اپنے خطاب میں جو باتیں کیں وہ رلا دینے والی تھیں۔ اس نے بتایا کہ بارش خدا کی رحمت ہوتی ہے لیکن ہم مزدوروں کے لئے رحمت کے بجائے اس لئے زحمت ثابت ہوتی ہے کہ اس دن ہمیں کام نہیں ملتا اور ہم خالی ہاتھ اپنے گھر واپس جاتے ہیں۔ اور اس دن ہمیں بھوکا رہنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مزدوروں کا جینا تو ویسے بھی امتحان اور سخت آزمائش ہی ہے مگر مرنا اس سے بھی زیادہ تکلیف دہ ہوتا ہے کہ فوت ہونے والے کی تدفین کے لئے کفن کی رقم بھی نہیں ہوتی اور مزدورں کو قرض یا ادھار دینے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ لیاقت علی نے یہ بھی بتایا کہ مزدوروں کی اکثریت کو سر چھپانے کے لئے اپنا ذاتی مکان بھی نہیں ہوتا۔ کرایہ کے مکان میں زندگی مزید مشکل گزرتی ہے۔ یعنی دوسروں کے لئے گھر اور محل بنانے والے اپنے گھر سے محروم رہتے ہیں۔ ایسی اور بھی انہوں نے درد بھری باتیں بتائیں جن پر الگ سے کالم لکھنے کی ضرورت ہے۔ اسی یکم مئی کو ایسے لوگ بھی خود کو مزدور اور مزدور رہنما کہلاتے ہیں جو انتہائی بد دیانت کام چور کرپٹ اور بلیک میلر ہوتے ہیں جو مزدوروں کے حقوق کا سودا کرتے ہیں۔ ایسے سرکاری ملازم جو یونین کی آڑ میں نہ صرف خود ڈیوٹی نہیں کرتے بلکہ اپنے خاندان کے افراد کو بھی بھرتی کرا لیتے ہیں اور وہ بھی گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔

خود یونین لیڈر بن کر اپنے محکمہ سے ماہانہ لاکھوں روپے کا بھتہ وصول کرتے ہیں اور اپنے ہی مزدور ملازمین کا استحصال کرتے ہیں۔ اور دنیا کے مزدورو ایک ہو جاٶ کا نعرے لگواتے ہیں۔ مزدور اتحاد اور مزدور مزدور بھائی بھائی کا منافقانہ نعرہ لگوا کر اپنے ذاتی مفادات حاصل کرتے ہیں۔ یہی وہ جعلی مزدور ہیں جو اپنے محکمہ میں کرپشن بھتہ خوری اور بلیک میلنگ کا بازار گرم رکھے ہوئے ہوتے ہیں۔ لاکھوں اور کروڑوں کی پراپرٹی کے مالک بنتے ہیں۔ اور یہی مزدوروں کے لیڈر اور رہبر بنے ہوئے ہیں۔ حالانکہ اصل مزدور تو وہ مرد و خواتین بچے اور بوڑھے ہیں جو کھیتوں سڑکوں کارخانوں ہوٹلوں ریستورانوں گیراجوں ورکشاپس اور گھروں وغیرہ میں کام کرتے ہیں۔ تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور گھروں میں کام کرنے والی بچیاں اور خواتین تشدد کے ساتھ ساتھ بعض اوقات جنسی زیادتی کا نشانہ بن جاتی ہیں۔ مگر افسوس کہ ہماری اسلامی ریاست اپنے محنت کش اور مزدور مرد و خواتین بچوں اور بوڑھوں کو عزت روزگار اور تحفظ دینے میں ناکام رہتی ہے۔

صحافت کے شعبے میں بھی جعلسازی اور دھوکہ دہی کا راج ہے۔ یہ فرق کرنا بہت مشکل لگتا ہے کہ اصل صحافی کون ہے۔ صحافت ایک بہت ہی معزز پیشہ ہے۔ صحافی کا بڑا مقام اور مرتبہ ہے۔ آزادی صحافت کی بات کی جاتی ہے۔ یہ بھی طے کرنا ابھی باقی ہے کہ آزادی ہے کیا چیز؟ آزادی کی حد کہاں سے شروع اور کہاں ختم ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں تو سیاستدان حضرات آزادی اور حق و سچ کی صحافت اس کو سمجھتے ہیں جس کے تحت ان کے مخالفین کے خلاف لکھا جائے اور خود ان کی تعریف کی جائے۔ خواہ وہ خود کتنا ہی کرپٹ بدعنوان ظالم اور بد کردار ہی کیوں نہ ہو۔ اگر صحافی اس کے بارے میں سچ لکھتا ہے تو وہ صحافی اس کی نظر میں بلیک میلر بن کر سزا کا مستحق بن جاتا ہے۔ جبکہ سرکاری اداروں میں ہونے والی بدعنوانیوں کے بارے میں لکھنا صحافی کے لئے مزید مشکل بن جاتا ہے اور سیکوریٹی اداروں کے بارے میں لکھنا گویا موت کو دعوت دینا یا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ اس لئے حق اور سچ لکھنے والے صحافی کے لئے صحافت قدم قدم پر آزمائش اور شدید خطرات کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں صحافی مشکلات اور خطرات میں گھرے رہتے ہیں۔

اب تک دنیا بھر میں ہزاروں مرد و خواتین صحافی حق اور سچ لکھنے پر قتل کیے جا چکے ہیں۔ قید و بند اور تشدد کے واقعات تو حقیقی صحافیوں کے لئے آئے روز کے معمولات میں شامل ہیں۔ مگر یہاں بھی مزدور پروفیسر اور ڈاکٹر وغیرہ کی طرح اصل اور جعلی صحافی میں فرق پیدا کرنا بڑا اہم مسئلہ ہے۔ صحافت کے شعبے میں ایسے افراد گھس آئے ہیں کہ اصل صحافی کی پہچان ہی مشکل بن گئی ہے۔ سوشل میڈیا میں تو یہ مسئلہ اور بھی پیچیدہ بن گیا ہے۔ اب تو ہر دوسرا اور تیسرا شخص صحافی بنا ہوا ہے۔ ایسے صحافیوں کو نہ تجربہ ہے نہ مہارت اور نہ ہی تربیت۔ ان کا مقصد معاشرے کی اصلاح و بھلائی اور مسائل کی نشاندہی نہیں بلکہ ناجائز عزت دولت اور شہرت حاصل کرنا ان کا اصل مقصد ہوتا ہے۔ جس کے لئے وہ ہر غلط کام خوشامد چاپلوسی اور جھوٹ لکھ اور بول کر نہ صرف خوش اور مطمئن ہوتے ہیں بلکہ اپنے شرمناک کرتوتوں پر فخر بھی کرتے ہیں۔

لوگوں پر رعب جمانے اور بلیک میل کرنے کی غرض سے اور خود کو معزز اور مشہور ثابت کرنے کے لئے بڑے نامور لوگوں کے ساتھ تصاویر اور سیلفیاں بنوا کر سوشل میڈیا میں پوسٹ کر کے فخر محسوس کرتے ہیں۔ حالانکہ کسی بڑے عہدیدار کے ساتھ تصویر بنوانا احساس کمتری کا واضح ثبوت ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ جو اوپری سطح کے اینکر یا صحافی ہیں ان میں کچھ ایسے صاحبان اور صاحبائیں بھی ہیں جو نیوز چینلز کے ٹاک شوز میں یا تو لوگوں کو مرغوں کی طرح لڑاتے ہیں یا پھر سوال بھی خود کرتے ہیں جواب بھی خود دیتے ہیں۔ مہمانوں کو بولنے ہی نہیں دیتے اس لئے وہ بیچارے اپنا مدعا بیان ہی نہیں کر پاتے اور یہ بھی آزادی صحافت کا ایک حصہ ہے۔ اس طرح کے لوگ ہی خود کو صحافی سمجھتے ہیں۔ اس لئے آزادی صحافت سے پہلے یہ بھی سوچنا ہے کہ اصل اور جعلی صحافی کی پہچان کیسے ہو؟ اس کے بعد ہی آزادی صحافت کے بارے میں کچھ کرنا ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).