خدیجہ مستور کا آنگن: اس ادبی شاہکار کو ٹی وی ڈرامے میں ڈھالنا ایک کارنامہ ہے!


مصطفی نے لکھا اور خود اس ڈرامے میں بڑے چچا کا کردار بھی مہارت سے ادا کیا۔ لیکن اسے پیش کرنے کا دل گردہ پیسے کے ضائع ہونے کا خوف اور منافع سے ہاتھ دھونے کا ڈر تو مومنہ درید کے پاس تھا۔ جو اس ادارے کی روح رواں ہیں جہاں سے یہ شاندار منصوبہ پایہ تکمیل کو پہنچا ہے۔ مومنہ نے ان سارے ڈراووں اور سارے وسوسوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے میدان بیاباں میں کودنے اور کود کر ان سارے وسوسوں کو شکست دینے کا تہیہ کیا۔ تو ان کے اس حوصلے اور جرات کو سراہنا چاہیے انھوں نے ٹی وی ڈرامے کی سطحی حیثیت کو ایک سنگ میل دیا ہے جہاں سے ذہانتوں اور حسیات کا ایک نیا سفر شروع ہوسکتا ہے۔

ادبی شہکار۔ وہ بھی ایک ایسے عہد اور ماحول میں لکھے گئے مناظر اور کہانی کو ڈرامائی صورت گری دینا جو یہاں اس ملک اس خطے سے بہت دور علاقہ ممنوعہ میں کہیں موجود ہے۔ ایسے ناول کو پاکستان کے علاقے میں اور ایسی جگہوں پر فلمانا جو عین مین ویسی ہی معلوم ہوں جیسی ناول میں موجود ہیں اور جو تقسیم ہندوستان سے بھی پہلے کا منظر نامہ ہے، اسے ٹی وی کی اسکرین پر من وعن اتار لینا یقینا بہت دشوار تھا لیکن ڈرامے کے ڈائیریکٹراحتشام الدین نے اس کام کو پوری سچائی اور ایمانداری سے ادا کرنے میں پوری جان فشانی سے کام لیا ہے۔ ہر چند کہ ناول پڑھنے والے قارئین کے اذہان میں جو دیار اور جو در و دیوار تخیل کے پردے پر طلوع ہوتے ہیں ان جیسے مناظر اور منظر نامہ تو ظاہر ہے کہ سو فیصد کسی کو نہیں حاصل ہو سکتا مگر احتشام نے ایسا کچھ کر لانے میں جان جوکھوں سے کام تو لیا ہے۔

اسی طرح کرداروں کے انتخاب اور پھر فنکاروں کی کردار نگاری ان سب کو بھی ناول کے عین مطابق نہ سہی لیکن ناول سے قریب ترین ضرور محسوس کرا گیا ہے۔ سب سے اہم اور ناقابل فراموش اور شاید سب سے مشکل کردار چھمی کا تھا جسے سجل علی نے اس طرح ادا کیا ہے کہنا پڑتا ہے اسے صرف وہ ہی ادا کرسکتی تھیں سچ پوچھئیے تو اس اداکارہ نے ناول کی چھمی کو جیتی جاگتی شکل میں اپنے پڑھنے والوں کے بیچ لا بٹھایا ہے۔ سجل کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔

ناول عالیہ کے کردار کے حوالے سے باقی کرداروں اور زندگی کے بدلتے رنگوں اور حالات و واقعات کو بیان کرتا ہے ایسا شاید پوری طرح ڈرامے میں کیا جاتا تو ڈراما ایسا جاذب نظرو توجہ نہ بن پاتا جیسا کہ وہ اب دکھائی دیتا ہے۔ اس فنی مہارت اور غیر معمولی پن کے لیے مصطفی کی بصیرت کی تعریف کرنامناسب معلوم ہوتا ہے۔ جمیل بھیا کے کردار میں جس فنکار کو پیش کیا گیا ہے۔ احد رضا یہ کچھ زیادہ متاثر نہیں کرتے۔ ماورا حسین جو عالیہ کے مرکزی کردار میں دکھائی دیتی ہیں ناول کی عالیہ کو پوری طرح تو اپنے وجود اپنے کردار کا حصہ نہیں بنا سکیں لیکن انھوں نے اس کردار سے انصاف کرنے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لانے میں جو بھی پرفارمنس دی ہے وہ یقیناً بہترین ہے۔

خاص طور سے چھمی اور عالیہ کے مناظر جہاں ناول ہمیشہ عالیہ کو زبر بتاتا ہے وہاں چھمی کے لیے اپنی بجو سے زیادہ متاثر کردینے کی والی پرفارمنس دینا اور اس کی تائید ناظرین سے حاصل کرلینا بہت جوکھم کا کام تھا لیکن سجل علی نے یہ جوکھم سر کرکے دکھایا۔ وہ جب اور جہاں بھی ماورا کے سامنے آئی ہیں فتح ہمیشہ ان کے ہی ہاتھ رہی ہے۔

یہ کہنا بجا ہے کہ چھمی کے کردار کو صرف وہ ہی ادا کرسکتی تھیں۔ دیگر کرداروں میں صفدر، عالیہ کی ماں، بڑی چچی، بڑے چچا ( رائٹر مصطفی آفریدی خود) کریمن بوا، اسرار میاں، عالیہ کے والد، عالیہ کی بہن تہمینہ کے علاوہ جو کردار بے پناہ متاثر کرتا ہے وہ زیب رحمان نے ادا کیا۔ دادی کا کردار۔ جس جاہ و حشم اور طنطنے کی ضرورت اس کردار کو تھی اس میں وہ بہت حد تک کامیاب رہی ہیں۔

ہندوستان کی تقسیم کی سیاسی تاریخ کو ایک گھر کے آنگن میں ڈسکس کرنے کا جو بے مثال کارنامہ خدیجہ مستور نے سر انجام دیا تھا اسے پوری طرح تو نہیں لیکن بڑی حد تک ڈرامے کا حصہ بنانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی گئی۔ کسی ادبی وہ بھی شاہکار کے درجے کو پہنچے ہوئے ناول کو ٹی وی ڈراما بنانا ایک ایسا نازک اور مشکل کام ہے کہ ذرا سی چوک ڈراما نویس کو ادب کا مجرم بناسکتی ہے۔ اس نازکی کو جس باریکی سے مصطفی نے نبھایا ہے اس کے لیے یہ کہنا چاہیے کہ انھوں نے ناول کی روح کو کہیں بھی مجروح ہونے نہیں دیا۔

لہٰذا اس پیش کش کے بارے میں یہ کہنا کہ جس عزت اور وقار کی ضرورت پاکستان کے ٹی وی ڈرامے کو بہت شدت سے تھی اس ضرورت کو آنگن نے پورا کردیا ہے۔ پوری طرح برحق ہے۔ اب یہ کہنا کہ ٹی وی ڈراما محض سطحی ہے یا اس میں ناقابل برداشت جمود اور یکسانیت ہے یا پھر اس کا کینوس اور اس کے موضوعات اتنے محدود ہیں کہ کسی اندھے کنوئیں میں قید ہوجانے جیسا تاثر ابھرتا ہے۔ ان سب الزامات اور تمام ایسے تاثرات کو مصطفی آفریدی، مومنہ درید، احتشام الدین اور جملہ فنکاروں، متعلقین اور وابستگان کی محنت اور جفا کشی اور بے پناہ جذبے نے حرف غلط نہیں تو پہلے قدم کے طور پر کچھ کردکھانے کی پیش قدمی کے طور پرٹی وی ڈرامے کی تاریخ کے ماتھے پر رقم کرنے کی اپنی سی کوشش تو ضرور کی ہے۔ اس کا سہرا ہم ٹی وی کے سر باندھنا مبنی بر انصاف اور توصیف کے لائق ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2