ایوینجرز سیریز کے سپر ولن تھینوز اور ہٹلر میں مماثلت


والٹ ڈزنی کے بینر تلے مارول کامکس کی حالیہ ریلیز فلم ”ایوینجرز، اینڈگیم“ نے محض پہلے پانچ دنوں میں ہی دنیا بھر سے ایک ارب بیس کروڑ ڈالرز کی کمائی کرکے سب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ اس فلم نے سنیما کی تاریخ میں بنے گزشتہ ریکارڈز کو میلوں پیچھے چھوڑتے ہوئے یہ روشن امکان پیدا کردیا ہے چند ہفتوں میں ہی اوتار کا سب سے زیادہ دو ارب ڈالرز کے لائف ٹائم ریکارڈ کو بھی پیچھے چھوڑ دے گی۔ مارول اسٹوڈیوز نے بلاشبہ کامکس کی دنیا میں عمدہ ڈائریکشن اور حقیقت کے قریب ترین گرافکس کے استعمال کے نئے معیار قائم کرتے ہوئے ایک تاریخ رقم کی ہے۔ مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ محض گیارہ برس کے قلیل عرصے میں ایک ہی موضوع سے بالواسطہ اور بلاواسطہ طور پر جڑی بائیس مختلف فلمز کے ذریعے اب تک اٹھارہ ارب ڈالرز کا بزنس ہو چکا ہے۔

ایوینجرز مختلف سپر ہیروز کا متحد ہو کر دشمن سے مقابلہ کرنے کی سیریز کا نام ہے۔ حالیہ ”ایوینجرز اینڈ گیم“ بائیس مجموعی کہانیوں کا اختتامی مرحلہ ہے۔ چار اقساط پر مبنی ایوینجرز سیریز کا سب سے متاثر کن کردار سپر ولن تھینوز کا ہے جو کہ دلچسپی سے خالی نہیں۔

تھینوز ٹائٹن نامی ایک سیارے کا باسی ہوتا ہے۔ وہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اس کا سیارہ بڑھتی آبادی اور محدود وسائل میں عدم توازن کو برداشت نہ کرنے کے باعث فنا ہوجاتا ہے۔ تھینوز اس تباہی سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے کہ آبادی اور وسائل کو ہر صورت توازن میں رکھنا لازم ہے چاہے اس کے لئے آدھی آبادی کو ختم ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ تھینوز اس عزم کو لے کر ایک طاقتور فوج بناتا ہے اور ہر سیارے کی آدھی آبادی کو تباہ کرتا چلا جاتا ہے۔ اسی دوران اسے احساس ہوتا ہے کہ بجائے ہر ایک سیارے میں تباہی پھیلانے کے کیوں نہ چھے ”انفنیٹی سٹونز“ کو قبضے میں لے کر ایک چٹکی میں ہی کائنات بھر کی آدھی آبادی ختم کر کے توازن پیدا کر لیا جائے۔

پاور، رئیلٹی، اسپیس، ٹائم، مائنڈ اور سول (روح) وہ چھے بنیادی پتھر ہوتے ہیں جس کی وجہ سے (مارول کی تخیلاتی) کائنات قائم ہوتی ہے۔ تھینوز ان چھے پتھروں کے حصول کے لئے ایوینجرز کی مزاحمت کا سامنا کرتا ہے اور بالآخر انہیں حاصل کرلیتا ہے۔ اس کے بعد وہ ایک ہی چٹکی سے دنیا سمیت کائنات بھر کی آدھی آبادی ختم کردیتا ہے۔ حالیہ فلم میں ایوینجرز، تھینوز سے وہ پتھر چھین کر اس کے ارادوں کو خاک میں ملانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تھینوز کی جارحانہ جدوجہد کا بنیادی نکتہ ہے کہ وسائل کی تقسیم کو مساویانہ طور پر یقینی بنانے کے لئے آبادی کو محدود رکھنا ازحد ضروری ہے تبھی یہ کائنات قائم و دائم رہے گی۔ اس کے لئے وہ یہ لازم سمجھتا ہے کہ تمام مخلوق کو ایک مطلق العنان طاقت کے ذریعے سختی سے پابند کیا جائے۔

اب ہٹلر کی زندگی کا پہلو بھی دیکھیں۔ وہ پہلی جنگ عظیم میں انتہائی قریب سے یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ جرمنی کی پروٹیکشنسٹ معاشی پالیسی کی بدولت اس کے محدود وسائل فرانس، برطانیہ اور روس جیسی کلونیل طاقتوں کے وسائل کی بہتات کے آگے زیادہ دیر مقابلہ نہیں کر سکے اور شکست ہوئی۔ وہ یہ سوچ بناتا ہے کہ جرمنی کو ذہین ترین اور برتر قوم ہونے کے ناطے وسائل کی اس غیر مساویانہ تقسیم کو ختم کر کے ایک نئے نظام کی بنیاد رکھنی چاہیے۔

وہ طاقت میں آکر جرمن نسل کی تطہیر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کے بعد جرمن یکجہتی کے نام پر آسٹریا، چیکوسلواکیہ اور پولینڈ پر قبضہ کرتا ہے۔ اور پھر فرانس، برطانیہ اور روس سے جنگ کرتا ہے۔ برلن، روم، ٹوکیو ایکسزکے ستمبر 1940 کے سہ فریقی معاہدے میں یہ ہی طے پاتا ہے کہ یورپ جرمنی کے لئے، ایشیا جاپان کے نام اور افریقہ کالونیز کے واسطے مخصوص کیا جاتا ہے جبکہ امریکہ کو نہیں چھیڑا جانا۔ ہٹلر اپنی زیادہ تر آبادی میں سے معذور اور یہودیوں کو تطہیر کے جواز میں قتل کرواتا ہے۔ اس کے بعد کی کہانی تاریخ کا حصہ ہے۔

مقاصد اور اس کے حصول کے طریقے میں تھینوز اور ہٹلر کے درمیان بے حد مماثلت پائی جاتی ہے۔ دونوں وسائل کی اپنے تئیں مساویانہ تقسیم چاہتے ہیں۔ دونوں اس مقصد کے حصول کے لئے طاقت کے بے دریغ استعمال کو درست سمجھتے ہیں۔ دونوں قتل عام کو تطہیر کا جواز دیتے ہیں۔ تھینوز اگر انفنیٹی اسٹونز کو اپنے ہاتھ یکجا کرکے پوری کائنات کے وسائل پر ایک دم سے اپنی دسترس حاصل کرنا چاہتا ہے تو ہٹلر یورپ، جس کے زیر تسلط آدھی دنیا کے وسائل ہوتے ہیں، پر قبضہ کر کے وقت بچانا چاہتا ہے۔ دونوں میں کسی کو اپنا اتحادی بنانے کی پہلی شرط اپنی برتری تسلیم کروا کر آگے بڑھنے کی ہوتی ہے۔ کیا یہ مماثلت اتفاقیہ ہے۔ شاید نہیں!

صرف تھینوز ہی نہیں کامکس کہانیوں کا ہر طاقتور ولن دنیا کے موجودہ نظام کو بزور قوت تہہ و بالا کر کے نئے سرے سے آباد کرنا چاہتا ہے۔ وہ مارول کا تھینوز ہو یا آلٹرون، ڈی سی کامکس کا جنرل زوڈ ہو یا جسٹس لیگ۔ صرف یہی نہیں، سائنس فکشن میں بھی ٹرمینیٹرز، دی میٹرکس، انڈیپنڈنس ڈے اور وار آف دی ورلڈ کی خلائی و مشینی مخلوقات اور ایکس مین سیریز کے میوٹینٹ میگنیٹو، سبھی اس دنیا کی بے حسی، بے ہنگم پن اور لاقانونیت کو جواز بنا کر نئے سرے سے ایک نظم وضبط والی دنیا آباد کرنا چاہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام فکشن میں بھی یہ عنصر نظر آتا ہے۔ ٹام ہینکس کی اینجلز اینڈ ڈیمنز، ڈاونچی کوڈ اور انفرنو میں بھی کچھ خبطی، طاعون اور مذہبی جنگوں جیسے یورپی تاریخ کے سیاہ ابواب کو نعمت سمجھتے ہوئی ترقی کی بنیادی وجہ قرار دیتے ہیں اور ایک بار پھر سے ایسی تباہی چاہتے ہیں۔ اسی تسلسل میں کسی گروہ یا شخص کی طرف سے غلط فہمی پیدا کر کے عالمی جنگ کروانے کی کوششیں تو کم و بیش ہر جاسوسی فکشن فلم کی کہانی ہوتی ہے۔

ایسا کیوں ہے کہ ہالی ووڈ فلم انڈسٹری اپنے طاقتور ولن میں ہٹلر کا عکس دکھاتی ہے۔ ایک نمایاں احساس تو یہ ہے کہ وہ پہلا شخص تھا جس نے توازن بذریعہ تشدد کو باقاعدہ طور پر منظم انداز میں ایک نظریہ بنا کر پیش کیا اور پھر اس کو ضابطہ حیات کی شکل دے کر پوری ایک نسل کو اس کا ہمنوا بنایا۔ دوسری جنگ عظیم کی صرف جانی و مالی ہی نہیں، نظریاتی تباہی نے بھی مغرب کو بے پناہ متاثر کیا۔ جانی و مالی نقصانات کا ازالہ تو ہوگیا لیکن نظریاتی تباہی نے اپنے گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

سرد جنگ کے خاتمے کے بعد جب قومی مسائل کو ابھرنے کے مواقع ملے تو مغربی معاشرے میں نئے نظام کی تشکیل کی آوازیں بھی اٹھنے لگیں جن کا بنیادی نکتہ وسائل کی بآسانی دستیابی ہے۔ مسئلہ چاہے جنگ کا ہو، باہمی اتحاد کا ہو، مشترکہ کرنسی کا ہو یا امیگریشن پالیسی کا سب کے پیچھے بنیادی نکتہ بحث وسائل میں توازن کا ہے۔ اس بحث سے منفی تاثر لینے کا سب سے بڑا ذریعہ بلاشبہ ہٹلر کا جارحانہ نظریہ ہی ہے۔ چنانچہ ہالی ووڈ میں تواتر کے ساتھ ہٹلر کے نظریے سے مماثلت رکھنے والے سپر ولنز ظاہر ہوتے ہیں، اپنے جواز کو منطقی بنا کر قابل قبول بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور وقتی کامیابی سے ہمکنار ہو کر اپنے مقاصد سے ہونے والی تباہی کی جھلک دکھا کر شکست کھا جاتے ہیں۔ یوں ان کا نظریہ جھوٹا ثابت کرنے کی سعی کی جاتی ہے۔

تاہم قابل غور امر یہ ہے کہ جب عوام ٹرمپ اور مودی جیسے افراد کا انتخاب کرتے ہیں تو کیا پھر بھی یہ سمجھا جائے کہ تھینوز کی شکست کے بعد ہٹلر کا نظریہ دفن ہوگیا!

انفنیٹی وار کے ایک سین میں تھینوز، آئرن مین سے مخاطب ہوتے ہوئے اپنی بے چینی کا مفہوم یوں سمجھاتا ہے کہ ”میں بھی تمہاری طرح آگہی کے عذاب کا شکار ہوں“۔ لیکن فرق یہ ہے کہ تھینوز کی آگہی اسے منفی رخ پر لے جاچکی ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).