میں نے ’ہم سب‘ کے قارئین کے نام دو سو محبت نامے کیوں لکھے؟


ایک ادیب دوست نے جب مجھ سے پوچھا کہ میری اپنی تخلیقات کے بارے میں کیا رائے ہے تو میں نے کہا کہ میری تخلیقات انسانیت کے نام میرے محبت نامے ہیں۔

اگر کوئی شخص مجھ سے چند سال پیشتر یہ کہتا کہ میں ’ہم سب‘ کے لیے دو سو کالم لکھوں گا تو میں بالکل نہ مانتا۔ تو سوال یہ ہے کہ یہ انہونی کیسے ہونی ہو گئی۔ آج میں آپ کو آپ کے نام لکھے ہوئے دو سو محبت ناموں کی کہانی سنانے آیا ہوں۔

اس کہانی کی ابتدا اس سہہ پہر ہوئی جب میرے ایک ادیب دوست نے مجھے میرے کلینک فون کر کے پوچھا ’کیا آپ جانتے ہیں کہ پاکستان کی ایک مشہور شخصیت جنید جمشید ایک ہوائی جہاز کے حادثے میں شہید ہو گئے ہیں‘

’نہیں میں جنید جمشید کو نہیں جانتا۔ میں تو چالیس برس سے کینیڈا میں رہ رہا ہوں۔ آپ مجھے ان کے بارے میں بتائیں‘

کہنے لگے ’ایک زمانے میں وہ ایک پوپولر موسیقار اور VITAL SIGNS BAND کے سنگر ہوا کرتے تھے۔ ان کے لمبے لمبے بال تھے اور وہ ایک سیکولر انسان تھے۔ پھر ان کی مولانا طارق جمیل سے ملاقات ہوئی‘ انہوں نے تبلیغی جماعت میں شرکت کر لی اور سر کے لمبے بال کٹوا کر لمبی داڑھی رکھ لی ’

’ تو آپ مجھے یہ سب کچھ کیوں بتا رہے ہیں؟ ‘

’ ڈاکٹر سہیل! آپ ایک ماہرِ نفسیات ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ اس کا نفسیاتی تجزیہ کریں کہ مشہور سیکولر شخصیات کیوں اور کیسے حد سے زیادہ مذہبی ہو جاتی ہیں‘

چنانچہ میں نے اس موضوع پر تحقیق کی موسیقاروں کے علاوہ ان کرکٹ کے کھلاڑیوں کی کہانیاں بھی پڑھیں جو باریش ہو گئے تھے ’مغرب کے موسیقار CAT STEVENS کے مسلمان ہونے کی روداد پڑھی اور باکسر محمد علی کلے کی مشرف با اسلام ہونے کی سوانح پڑھی۔ مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ امریکہ میں بھی ایسی عیسائی تبلیغی جماعت پائی جاتی ہے جو CHURCH OF SCIENTOLOGY کہلاتی ہے۔ وہ بھی پوری کوشش کرتی ہے کہ مشہور شخصیات ان کی چرچ میں شامل ہو جائیں کیونکہ ایک مشہور شخصیت کے چرچ میں شامل ہونے سے ان کے بہت سے مداح بھی بغیر سوچے سمجھے ان کے نقشِ قدم پر چلنے لگتے ہیں۔ مجھے پتہ چلا کہ اس چرچ نے TOM CRUISE اور JOHN TRAVOLTA جیسے ہر دلعزیز فنکاروں کو اپنا قائل اور گھائل کر لیا تھا۔ یہ تحقیق کر کے میں نے انگریزی میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا

RELIGIOUS CONVERSION OF CELEBRITIES

ان ہی دنوں میرے بی بی سی کے دوست عارف وقار نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اپنے مضامین ’ہم سب‘ کے مدیر وجاہت مسعود کو بھیجا کروں۔

میں نے پہلا کالم بھیجا تو وجاہت مسعود کا محبت بھرا خط آیا کہ رسالہ اردو میں ہے اور مضمون انگریزی میں۔ مجھے کالم پسند ہے ترجمہ کر کے بھجوا دیجیے۔

میں نے چند دنوں کے بعد اردو میں کالم بھیجا۔ انہوں نے چھاپا تو ’ہم سب‘ پر ایک طوفانَ شروع ہو گیا۔ ہزاروں لوگوں نے پڑھا لیکن مجھ پر اتنی سنگباری ہوئی کہ وجاہت مسعود کو مجھ سے ہمدردی ہو گئی اور میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے لکھا کہ ڈاکٹر صاحب دلبرداشتہ نہ ہوں۔ بس لکھتے رہیں۔

چنانچہ میں لکھتا رہا اور وہ چھاپتے رہے۔ کچھ کالم ادبی تھے ’کچھ نفسیاتی۔ کچھ سماجی تھے اور کچھ فلسفیانہ۔

پہلے چند ماہ تو میرے غیر روایتی کالموں پر کافی سنگباری ہوئی۔ کچھ قارئین نے سخت جملے لکھے۔ کچھ نے تلخ کلامی کی اور میری انسان دوستی کو للکارا۔ کچھ نے تبلیغ کی۔ کچھ نے میری گمراہی پر لعن طعن کی اور کچھ نے میری ہدایت کی دعا کی۔ کچھ نے فیصلہ سنا دیا ’ڈاکٹر صاحب آپ بظاہر دہریہ ہیں لیکن اندر سے درویش ہیں‘

اس سفر میں میں بھی ایک نفسیاتی اور ادبی تبدیلی سے گزرا۔ پہلے میں اپنے ناقدین کے سخت اور تلخ کمنٹس کو نطر انداز کرتا پھر ان کا اپنا سچ بیان کرنے کا شکریہ ادا کرتا اور پھر ان سے مودبانہ مکالمہ کرتا۔ آہستہ آہستہ میرے ناقدین کے رویے میں تبدیلی بھی آئی اور نرمی بھی۔ انہیں اندازہ ہو گیا کہ ہمارا اختلاف نظریاتی تھا، ذاتی نہ تھا۔ وہ جان گئے کہ اختلاف الرائے اور مخالفت، مکالمے اور دشمنی میں بہت فرق ہوتا ہے اور انہیں اندازہ ہو گیا کہ ایک جمہوری معاشرے میں اختلاف الرائے کا مسکراتے ہوئے خیر مقدم کیا جاتا ہے۔

میری انسان دوستی نے ان پر واضح کر دیا کہ ایک خدا کو ماننے والوں اور ایک خدا کو نہ ماننے والوں میں بھی انسانیت کی بنیاد پر دوستی ہو سکتی ہے۔ آہستہ آہستہ میرا اپنے قارئین کے ساتھ ایک مخلصانہ اور دوستانہ تعلق پیدا ہو گیا۔ تلخی نے شیرینی کا روپ دھارا اور دوستی میں خلوص ’محبت اور اپنائیت کے رنگ گہرے ہونے لگے۔

اسی دوران مجھے فیس بک پر دوستی کی دعوتیں آنے لگیں۔ ’ہم سب‘ کی دوستیوں میں پہلے امریکہ کی ڈاکٹر لبنیٰ مرزا سے دوستی ہوئی پھر ڈاکٹر غزالہ قاضی سے ملاقات ہوئی۔ پھر لاہور کی رابعہ الربا سے دوستی ہوئی اور ہم نے مل کر ’درویشوں کا ڈیرا‘ لکھی جس کے خواب نامے ’ہم سب‘ پر چھپے۔ پھر میں نے جب کینیڈا کے ادیب دوستوں سے کہا کہ وہ بھی کاروانِ شوق میں شامل ہوں تو گوہر تاج ’ثمر اشتیاق‘ زہرا نقوی ’حبیب شیخ‘ ہما دلاور اور خواجہ زبیر اپنے ادبی تحفے لے کر آ گئے۔

میری ’ہم سب‘ کے مدیروں اور قاریوں کے ساتھ دوستی اتنی بڑھی کہ پندرہ برس کی جدائی کے بعد میں پچھلے پندرہ مہینوں میں دو دفعہ پاکستان گیا۔

میں نے وجاہت مسعود کو گلے لگا کر پوچھا ’آپ میرے محترم مدیر ہیں۔ میں ایک لکھاری ہوں۔ آپ کا درویش کو کیا مشورہ ہے؟ وجاہت مسعود نے وہی مشورہ دیا جو انہوں نے پہلے متنازعہ کالم کے بعد دیا تھا ’بس اپنی روشنی میں لکھتے رہیے‘۔

پاکستان میں لینہ حاشر ’حاشر بن ارشاد‘ تحریم عظیم ’وقار احمد‘ عاصم بخشی ’حسنین جمال‘ عدنان کاکڑ ’ڈاکٹر شیر شاہ اور عفت نوید کے علاوہ اور بھی بہت سے لکھاریوں سے ملاقات ہوئی۔ مجھے بالکل اندازہ نہ تھا کہ پاکستان میں اتنے زیادہ لوگ میرے کالم اتنی زیادہ سنجیدگی سے پڑھتے ہیں اور اگلے کالم کا انتطار کرتے ہیں۔ میں نے اسلام آباد کے فرنود عالم سے وجہ پوچھی تو کہنے لگے‘ آپ لوگوں کو مشتعل نہیں کرتے ’وجاہت مسعود کی شریکِ حیات تنویر نے کہا‘ آپ دقیق موضوعات اور گنجلک فلسفوں کو ایسے عام فہم زبان میں بیان کرتے ہیں کہ اس سے عوام و خواص استفادہ کرتے ہیں ’اور میں نے جب بلوچستان کے عابد میر سے پوچھا تو کہنے لگے

FOR OUR GENERATION YOU ARE AN INSPIRATION

اب مجھے یوں محسوس ہوتا ہے کہ مجھے میری تھوڑی سی ادبی کوشش کا میری توقعات سے بہت زیادہ اجر مل رہا ہے۔ معمولی کام کو غیر معمولی پزیرائی مل رہی ہے۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ اتنے زیادہ لوگ مجھ سے کیسے اتنی زیادہ محبت کرتے ہیں۔ میں آج بھی اپنے آپ کو نفسیات اور ادب کا طالب علم سمجھتا ہوں اور زندگی کے نئے رازوں کو جاننے کے لیے تیار رہتا ہوں۔

میں نے دو سو محبت نامے لکھے اور قارئین نے مجھے دو سو فیصد محبت دی۔ یہ کسی بھی لکھاری کی خوش قسمتی ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی قارئین کی محبت کی بارش میں اندر تک بھیگ جائے۔

میں نے یہ کالم ’ہم سب‘ کے مدیروں اور قاریوں کا تہہِ دل سے شکریہ ادا کرنے کے لیے لکھا ہے۔

THANK YOU FOR YOUR APPRECIATION AND INSPIRATION

کیونکہ آپ سے ادبی مکالمے نے مجھے ایک بہتر انسان اور ہمدرد ادیب بنایا ہے۔ آپ سب سے میرا رشتہ محبت، ادب اور انسان دوستی کا رشتہ ہے یہ وہ رشتہ ہے جو کرہِ ارض کے سات ارب انسانوں کو ایک کچے دھاگے میں باندھتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب انسان ایک ہی خاندان کے افراد ہیں کیونکہ ہم سب دھرتی ماں کے بچے ہیں۔ میں مذہبی آدمی نہیں لیکن اپنے ادبی کام کو عبادت سمجھ کر کرتا ہوں۔ میں ادبِ عالیہ کا بڑا احترام کرتا ہوں کیونکہ وہ ہمیں ایک بہتر انسان بننا اور دوسرے انسانوں کا ادب کرنا سکھاتا ہے۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 689 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail