میرا گاؤں، سیاست اور ٹیکنالوجی


یہ ان دنوں کی بات ہے۔ جی ہاں یہ ان دنوں کی بات ہے، جب گاؤں کی نوے فیصد آبادی ان پڑھ تھی اور باقی کے دس فیصد کوئی گریجویٹ نہیں تھے، بس نماز کا طریقہ، اور تھوڑا بہت جمع تفریق کا حساب جانتے تھے۔ جب گھر کچے تھے، اور رشتے مضبوط تھے۔ نہ ریڈیو تھا اور نہ ٹی وی، موبائل کا تو دور دور تک تصور ہی نہ تھا۔ لیکن یہ ان پڑھ دیہاتی لوگ من کے اجلے تھے۔ کبھی کوئی بندہ کورٹ کچہری نہ گیا اور نہ ہی کسی نے دوسرے پر ہاتھ اٹھانے کا سوچا بھی۔

ان میں ایک چاچا ہاشم مرحوم بھی تھے، جن کی دو ایکڑ زمین آباد تھی اس میں آم، فالسے اور لیموں کے درخت لگائے تھے، پھل تیار ہوتا تو گاؤں کے گھر گِنے جاتے، بیس گھر ہیں۔ پھلوں کے بیس حصے کیے جاتے تھے انیس حصے گاؤں میں بانٹ کر ایک حصہ اپنے بچوں کے لیے رکھتے تھے، نہ کبھی کسی کو ڈاکٹر کی ضرورت پڑتی تھی، کسی کو سر درد ہوا تو چاچا حبیب اللہ مرحوم سے دم کرواتے اور افاقہ ہو جاتا، رات کو اگر تکلیف ہوتی تو سر پر گرم تیل کی مالش کر لیتے تھے جو پین کلر کا کام کرتا تھا۔

رمضان کے دنوں میں حافظ محمد بخش افطاری کے وقت ریڈیو ساتھ رکھتے تھے اور جیسے ہی ریڈیو حیدر آباد سے اذان مغرب کی آواز آتی آپ کھڑے ہوکر اذان کہتے تھے، پُرسکون ماحول میں اذان کی آواز گاؤں کے آخری کونے تک بآسانی سنائی دیتی تھی۔ گاؤں کے واحد پرائمری اسکول میں جب سالانہ امتحان ہوتے تو نانی اماں نج گھی میں چینی ڈال کر دیتیں جو بمبئی بیکری کے کیک اور ڈیرہ ملک چاکلیٹ سے ذائقہ میں کم نہ تھا۔ والد مرحوم ہر جمعہ کو روزہ رکھتے تھے اور گھر میں اسکول کے بچوں کے لیے چاول پکتے تھے اور چھٹی کے وقت ہم اسکول کے بچے بڑے شوق سے کھاتے تھے اور اگلے جمعہ کا انتظار رہتا تھا۔ لوگ غریب تھے لیکن دل کے امیر تھے۔ کینہ حسد جھوٹ غیبت کیا ہوتی ہے کسی کو کچھ پتا نہ تھا، سارے گاؤں کے غم اور خوشی مشترکہ ہوتے تھے۔

1۔ تعلیمی انقلاب۔

غالباً سن اسی کے اواخر میں ہمارے گاؤں میں تعلیمی انقلاب آیا۔ علامہ صاحب تشریف لائے اور گاؤں کا ہر بچہ نہ صرف قرآن پاک پڑھنے لگا بلکہ کنز، قدوری اور تفسیر جلالین پڑھنے لگا۔ بچوں بچیوں کی الگ کلاس، خواتین کی الگ کلاس ہونے لگیں۔ اور بزرگوں کی ہر جمعہ کو کلاسز ہونے لگی۔

اب گاؤں کے پانچ سال کے بچے سے لے کر اسی سال کے بزرگ وضو اور نماز کے فرائض سے واقف تھے۔ ایک دن علامہ صاحب نے کہا کہ ہم لائبریری کھولیں گے اور پھر دس روپے ماہانہ چندہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے پندرہ سو کتابیں جمع ہو گئیں۔ شاہ جو رسالو، الطاف شیخ کے سفر نامے اور نسیم حجازی کے ناول میں نے چھٹی کلاس میں پڑھ لئے تھے، علامہ صاحب درس تدریس کے ساتھ ساتھ گاؤں والوں کی اخلاقی حالت سے بھی ایک لمحہ غافل نہ تھے۔

اور محبتوں اور خلوص کا سلسلہ پروان چڑھتا رہا۔ کسی گھر میں فوتگی ہوجاتی تو خدابخش کے ہاں بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن چالیسویں تک بند رہتا۔ (گاؤں میں واحد ٹی وی تھا جس پر دھواں، انگار وادی اور الفا بریوو چارلی ڈرامہ دیکھتے تھے۔ ) یہ وہ دور تھا جب احساس زندہ تھا، ہمارے گھر میں دو بیل تھے ایک مر گیا دو دن گھر والوں نے کھانا نہیں کھایا، اس غم سے نہیں کہ یار فنانشل لاس ہو گیا ہے، وہ تو بابو لوگوں کو ہوتا ہوگا جو پکے گھروں اور محلات میں رہتے ہوں گے جو بچوں کو پیار بھی ناپ تول کر دیتے ہیں، ہم دیہاتی لوگ تو جانوروں کا غم لیے بھوکے سو جاتے تھے۔

ملیر ہالٹ کراچی کے پاس ایک ہومیوپیتھی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا (معدہ کی تکلیف کے سلسلے میں ) جو سائیکلاجسٹ بھی تھے۔ پوچھا اگر ٹیلی ویژن پر کوئی اموشنل سین دیکھو تو کیا فیل کرتے ہو؟ ادھر ادھر دیکھا کوئی سن تو نہیں رہا، کہا ڈاکٹر صاحب آنکھیں بھر آتی ہیں۔ سڑک پر کسی بچے کو پھٹے کپڑوں میں چیزیں بیچتے دیکھتا ہوں تو آنکھیں بھر آتی ہیں۔ (شاید یہ گاؤں کی کچی مٹی کا اور ماحول کا اثر ہے۔ )

2۔ سیاست کی آمد۔

یہ دوسرا دور ہے۔ اب سندھی روزنامہ کاوش آنے لگا اور کچھ دانشور لوگ علی قاضی کے زہر کو شہد سمجھ کر گاؤں والوں کے اذہان میں گھولنے لگے، آہستہ آہستہ گاؤں والوں کے اندر سیاسی چسکا بڑھنے لگا، سیاست بھی لوکل سیاست، اب لوگوں کی ترجیحات انسانیت سے بدل کر پارٹی تک محدود ہونے لگیں، محلے کی تقسیم ہونے لگی یہ اِس جماعت کا وہ اُس جماعت کا، اس دوران تواتر کے ساتھ الیکشنز کے انعقاد نے جلتی پر تیل کا کام دیا، اب لوگ دبے دبے لفظوں میں ایک دوسرے کی غیبت کرنے لگے اور عیب تلاش کرنے لگے۔

جیسے جیسے سیاسی کیڑا بڑھتا گیا انسانیت سمٹتی گئی۔ پھر 1999 کے مشرف کے کُو کے وقت مٹھائیاں بٹنے لگیں اور یوں ہمارا سندر گاؤں سیاسی میدان جنگ میں بدلنے لگا۔ اور مشرف دور میں تو ایک دوسرے کے گریبان پکڑنے تک آگئے۔ اپنے امیدوار کو جتوانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے لگے، لیکن ان سادہ دل دیہاتیوں کو کیا پتا جن سانڈوں کے لئے ہم مرنے مارنے کے لیے تیار ہوتے ہیں وہ تو رات کو ایک ساتھ بیٹھ کر جام ٹکراتے ہیں اور ہماری حماقتوں کا خوب مذاق اڑاتے ہیں، لیکن اب ہم بہت دور چلے گئے تھے، پکے جیالے اور لیگی بن چکے تھے۔

سمجھ بوجھ کے سارے دروازے بند کرکے بھٹو کو زندہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔

3۔ ٹیکنالوجی کی آمد۔

رہی سہی انسانیت اور احساس کا گلا ماڈرن ٹیکنالوجی نے گھونٹ دیا۔ باپ کمرے میں کھانسی سے بے حال ہے لیکن بیٹے کو فیس بک سے فرصت ملے تو کوئی دوائی لا کر دے۔ آج کا دیہاتی دنیا جہاں کی خبر رکھنے لگا ہے۔ اجنبی دوست بنانے میں مصروف ہے لیکن پڑوس میں کسی کی عیادت کے لیے وقت نہیں، کسی رشتہ دار کے جنازے کوکندھا دینے کا ٹائم نہیں، اگر کسی بزرگ کے پاس جانا بھی پڑا تو سیلفی لی، فیس بک پر پوسٹ رکھی اور لائک اور کمنٹس کو دیکھنے میں مصروف ہوجائے گا، مریض بیچارہ بے بسی سے تکتا رہے گا۔ تو بھائیو یہ صرف میرے ایک گاؤں کی کہانی نہیں ہے، آپ کو ہر محلے گاؤں میں یہ کہانی ملے گی۔ خدارا سیاست کی خاطر رشتوں میں دوری پیدا نہ کریں اور موبائل ٹیکنالوجی کے غلام نہ بنیں، اپنے اندر احساس، انسانیت اور خلوص کو زندہ رکھیں جو زندگی کا اصل سرمایہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).