میں نے پولیو کے قطروں میں یہودی سازش کا مقابلہ کیسے کیا؟


قاری صاحب کا احترام واجب تھا کہ بچوں کو قرآن پڑھانے آتے تھے۔ میں ان دنوں ضلعی پولیو کنٹرول افسر تھا۔ پولیو مہم سال میں تین چار مرتبہ کرنی ہوتی ہے۔ یہ مہم پانچ دنوں پر محیط ہوتی ہے۔ پہلے تین دن پولیو ٹیمیں جو مرد و زن پر مشتمل ہوتی ہیں گھر گھر جا کر پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتی ہیں۔ ان کے پاس تمام بچوں کا ڈیٹا ہوتا ہے۔ جو بچے کسی بھی وجہ سے قطرے پینے سے محروم رہیں ٹیم ان کا نام درج کرلیتی ہے۔

چوتھے اور پانچویں دن خاص طور انہی بچوں کو تلاش کرکے قطرے پلائے جاتے ہیں۔ کچھ بچوں کے والدین انکاری ہوتے ہیں، ان کے لئے خصوصی ٹیمیں بنا بھیجی جاتی ہیں تاکہ ایک بھی بچہ قطرے پینے سے محروم نہ رہے۔ انکاری بچوں کے والدین کی لسٹ میں قاری صاحب کا نام بھی شامل تھا۔ ٹیم ممبر نے بتایا کہ قاری صاحب نے نہ صرف قطرے پلانے سے انکار کیا ہے بلکہ دھمکی لگائی ہے کہ وہ مجھ سے ٹیم کی شکائت لگائے گا۔ میں نے قاری صاحب کو سمجھانے کی کوشش کی تو فرمانے لگے ”ان قطروں میں خاندانی منصوبہ بندی کی دوا ہوتی ہے“ قاری صاحب کی شادی کو تین سال ہوئے تھے اور تین بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ ان کی بیگم اوپر تلے بچے پیدا کرکے پیلی ہو چکی تھی۔ میں نے سمجھایا کہ منصوبہ بندی کرنی ہوتی تو آپ کو قطرے پلاتے۔ جبکہ لیڈی ہیلتھ ورکر جو قاری کے گھر آتی تھی، نے بتایا کہ مجھے قاری صاحب کی بیگم نے کئی بار کہا ہے کہ مجھے قاری صاحب سے چوری چوری کوئی ٹیکہ لگا دو میں مزید بچے پیدا نہیں کر سکتی۔

ہر دفعہ انکاری بچوں کی فہرست میں ایک مدرسے کے بچے اور مہتمم مدرسہ مولوی صاحب کا نام آیا کرتاتھا۔ ایک بار میں نے فیصلہ کیا کہ میں خود اس مدرسے جاوں گا اور مولوی سے دو دو ہاتھ کر کے ہی واپس آوں گا۔ مولوی صاحب گرم مزاج انسان تھے۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ اور حجرے میں گھٹن مولوی کے اندر کی گھٹن سے ذرا کم تھی۔ فرمانے لگے یہ قطرے یہود و نصار کی سازش ہے۔ میں نے ڈرائیور کو گاڑی سے دو کوک کی ٹھنڈی بوتلیں لانے کو کہا۔

شکر ہے انکار نہیں ہوا۔ میں نے مولوی کو بتایا کہ یہ کوک تو آپ نے پی لی جو اصل میں یہودی سازش ہے۔ زچ ہو کر کہا ”مجھے جامعہ اشرفیہ سے فتویٰ لا دیں تو مانوں گا۔ میرے پاس جامعہ اشرفیہ سے جامعہ الازہر تک فتوے موجود تھے۔ تمام مسالک کے علما متفق ہیں کہ پولیو کے قطروں میں پولیو سے بچاؤ کی ہی دوا ہے اور یہ نقصان دہ نہیں۔ مولوی لیکن ضدی تھا میں نے مہتمم جامعہ اشرفیہ سے بھی اس کی بات کرادی۔ آخر ہر طرف سے لاجواب ہو کر کہنے لگے کل صبح اپنی ٹیم بھیج دیں۔ میں مطمئن ہو کر واپس آگیا۔ میری خوشی اس وقت کافور ہو گئی جب اگلے دن ٹیم نے رپورٹ کیا“ مدرسے کے تمام بچوں نے قطرے پی لئے ہیں۔ مولوی کے اپنے دو بچے رہ گئے ہیں۔ مولوی کی بیگم رات بچوں کو لے کر میکے چلی گئی ہے۔ میکے سندھ کے کسی دور دراز گوٹھ میں ہیں جس کا ایڈریس معلوم نہیں۔ ”۔

ملتان کے نواح میں رہنے والی ماں چھ بیٹیوں کے بعد ایک بیٹے کی ماں بنی تھی۔ وہ بیچاری اسی طرح کے توہمات کا شکار تھی۔ وہ اپنی بیٹیوں کو تو قطرے پلاتی رہی۔ جب بیٹا پیدا ہوا تو وہم لگ گیا اور اپنے بیٹے کو پولیو ٹیموں سے چھپاتی رہی۔ اس نے اپنے بیٹے کو ایک بار بھی قطرے نہیں پلائے۔ ابھی اس کا بیٹا چھ ماہ کا ہوا تھا کہ پولیو کا شکار ہوکر دونوں ٹانگیں مفلوج کرا بیٹھا۔

پاکستان میں پولیو کنٹرول نہ ہونے کی دو ہی وجوہات ہیں۔ ان کے پیچھے اگرچہ کئی عوامل کارفرما ہو سکتے ہیں۔ ایک وجہ والدین کی لا پرواہی یا شعور کی کمی ہے۔ دوسری وجہ پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کی نا اہلی یا کوتاہی ہے۔ دونوں کو موٹیویشن کی ضرورت ہے۔ ایک گاؤں کے وزٹ کے دوران مجھے پتہ چلا ایک گھر میں دوبچے ہیں جو قطرے نہیں پیتے۔ ایک دو بار ٹیم ان کے گھر بھی آئی۔ ماں نہیں مانی۔ ٹیم نے منانے کی کوشش بھی نہیں کی۔

میں اس گھر جا پہنچا۔ گھر والوں نے اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ کئی بار کھٹکھٹایا لیکن دروازہ نہیں کھولا گیا۔ اتنی دیر میں اڑوسی پڑوسی بھی اکٹھے ہو گئے۔ میں نے ان کو سمجھایا کہ اس گھر میں جو بچے ہیں ان میں پولیو وائرس آ گیا ہے۔ اگر ان بچوں نے قطرے نہیں پئے تو آپ کے بچوں میں بھی وائرس آجائے گا۔ یہ سنتے ہی پڑوس کی خواتین اندر کی دیوار پھاند کر بچے اٹھا لائیں۔ یوں موٹیویشن کام آئی۔

میان چنوں کے نواح میں ایک خاندان بچوں کو قطرے پلانے سے انکاری تھا۔ وہ ایک نوجوان خاتون تھی۔ اس کا شوہر ملٹری میں جوان تھا۔ وہ عورت کوئی کام شوہر کی مرضی بنا نہیں کرتی تھی۔ کہنے لگی میرا خاوند مان جائے تو قطرے پلاوں گی۔ اس نے شوہر کا نمبر ملا کر دیا۔ وہ جوان پاک آرمی کا نمائندہ جوان ثابت ہوا۔ جو بات ایک بار کہ دی پتھر پر لکیر ثابت ہوئی۔ بالکل نہیں مانا۔ میں نے فون واپس کر دیا۔ وہ عورت رونے لگ گئی۔ اس کے شوہر نے دھمکی لگائی تھی کہ اگر قطرے پلائے تو وہ اسے طلاق دے دے گا۔ صورت حال کو عورت کے سسر نے سنبھالا۔ بچوں کو سکول چھوڑنے کی ذمہ داری اسی کی تھی۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ بچوں کو سکول چھوڑتے ہوئے انہیں قطرے پلا لے گا اور ان کے والدین کو اس بات کا علم بھی نہیں ہوگا۔

پنجاب میں گزشتہ کئی سالوں سے پولیو تقریباً کنٹرول جا رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں طالبان کے زیر اثر علاقے ابھی اس مرض کے زیر اثر ہیں۔ وائرس کسی باونڈری کا محتاج تو ہے نہیں۔ دوسرا خیبر پختون خواہ اور پنجاب میں لوگوں کی نقل و حرکت کو بھی نہیں روکا جا سکتا۔ تحصیل خانیوال کے بہت سے گاؤں پٹھان قبائل سے آباد ہیں۔ قبائلی علاقوں سے یہاں رشتہ داروں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ ایک قبائلی خاندان اپنے دوبچوں کے ساتھ یہاں مقیم تھا۔ ٹیم نے قطرے پلانے چاہے تو وہ گن نکال لایا۔ پولیس گارڈ بھیجنی پڑی جو اسے اٹھا کر تھانے لے گئی۔ اس کو سمجھایا کہ اس کے قبضے سے غیر قانونی اسلحہ برآمد ہوا ہے۔ پرچے کے ڈر سے بچوں کو قطرے پلانے پر آمادہ ہوا۔

پولیو ورکرز زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ گھروں کے اندر جانا ہوتا ہے جو مرد حضرات کے لئے ممکن نہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ ان خواتین پر نازیبا فقرے کسے جاتے ہیں۔ اوباش لڑکے گلیوں میں ان کے ساتھ چھیڑخانی کرتے ہیں۔ حیرت ہے اس بے غیرتی پر معاشرہ سکون سے پڑا رہتا ہے۔ اس سے بھی بدتر وہ جانور ہیں جو ان بے گناہ پولیو ورکرز کے قتل میں ملوث پائے گئے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ایسے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں۔

صرف خواتین ہی تضحیک کا نشانہ نہیں بنتیں بلکہ بعض اوقات مرد بھی اس کا نشانہ بنتے ہیں۔ میں ایک ٹیم کی کارکردگی کا جائزہ لیتا پھر رہا تھا۔ میں نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ معلوم کر سکوں اس گھر میں ٹیم وزٹ کر گئی ہے یا نہیں۔ اندر سے خاتون خانہ کی غصے بھری آواز آئی ”بابا! معاف کرو۔ دوپہر کو بھی مانگتے پھرتے ہو“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).