سیاست کی گندگی


یہ سیاست بھی عجیب چیز ہے انسان کو جانور بنا دیتی ہے۔ انسان کو بے ایمان جھوٹا فریبی اور مکار کر دیتی ہے۔

انسان برائے نام مذہب کا بندا رہ جاتا ہے۔ سیاست انسان کو شاید خدا بننے کا احساس دیتی ہے اس لئے وہ سوال و جواب سے خود کو مبرا تصور کرتا ہے۔ انسان کا قول و فعل صفر ہو جاتا ہے۔ انسان انتہا کا مفاد پرست اور دھوکا باز ہو جاتا ہے۔ سیاست انسان کے ضمیر کو مار دیتی ہے۔ جب انسان کا ضمیر ہی نا رہے تو پھر انسان ہونے کا مقصد بھی ختم ہو جاتا ہے۔

یہ عناصر پورے دنیا کے سیاست دانوں میں موجود ہیں لیکن ہم صرف اپنی ریاست کے سیاستدانوں کی چند باتیں ڈسکس کریں گے کیونکہ ان کے قول و فعل ہمارے عوام کے ذہنوں پر اثر ڈالتے ہیں۔ باقی ممالک کے سیاستدان کتنے جھوٹے سچے ہیں اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں وہ جانے ان کی عوام جانے۔ ہم تو اپنے گھر اور ان کی افراد کی بات کریں گے۔

آج کل ایک بات بہت گرم اور زیر بحث ہے کہ عمران خان نے بلاول بھٹو کو ”صاحبہ“ کہا ہے۔ بات غلط ہے ایک ملک کے سربراہ کو بہت بردبار، سمجھدار، تحمل والا، نفیس، اور اعلا اخلاقی معیار کا ہونا چاہیے۔ لیکن کیا یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ہوا، کیا اس سے پہلے اس طرح کی باتیں نہیں ہوئیں؟ ہم پرانی تاریخ میں نہیں جاتے بلکہ تیس سال کی بات کرتے ہیں۔

جب ناچ گانے والے اپنے رزق والی جگہ پر آتے ہے تو احترام میں اس جگہ کو بوسہ دیتے ہے لیکن ہمارے نالائق سیاست دان تو ہر معاملے میں گئے گزرے ہیں وہ اسمبلی کے فلور پر بازاری زبان کھلے عام استعمال کرتے ہیں۔ 90 s میں بے نظیر زرد لباس میں اسمبلی آتی ہے اور آج کے بردبار نواز شریف کا ایک ساتھی انہیں پیلی ٹیکسی کہتا ہے۔ لیکن یہ بات آج بلاول کو صاحبہ کہنے پر شور مچانے والے بھول چکے ہیں۔ نصرت بھٹو کو گشتی عورت کہا جاتا ہے لیکن ایمان سے خالی ان سیاست دانوں کو یہ بات بھی بھول گئی ہے۔

شیخ رشید خیر ان کی تو بات ہی نا کی جائے کیونکہ کہ ان کے منہ کا تالا تو کبھی تھا ہی نہیں اور نا بن سکتا ہے۔ انہوں نے مسلم لیگ کہ ایک جلسے میں کہا تھا ک بے نظیر ایسے نہیں جائے گی اسلام آباد آئیں گی تو جوتے مار کر نکالیں گے، چڑیا گھر میں بند کریں گے۔ نواز شریف بلاول کے بارے میں کہتے ہیں کہ بلاول زرداری کا نہیں، فیصل صالح حیات کا بیٹا ہے لیکن تاریخ کے بے رحم اوراق میں یہ بات بھی دب جاتی ہے۔ اور آج بلاول کو صاحبہ کہنے پر شور مچانے والے مردہ ضمیروں کو یہ بات یاد نہیں۔

ان کو یہ یاد نہیں کہ وہ خود یہ گند کر چکے ہیں۔ رانا ثناءاللہ بلاول کو صاحبہ کہنے پر اسمبلی میں بینچ کو پیٹ کر احتجاج کر رہے تھے وہ، اس کی پارٹی اور عوام یہ بات بھول گئی کہ کچھ عرصہ پہلے بلاول کی شادی کے بارے میں جب باتیں ہورہی تھیں تو رانا ثناءاللہ نے نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ بلاول تو مرد ہی نہیں ہے اس کا طبی معائنہ کرانا چاہیے اور وہ شادی نہیں کریں گے۔ ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے مراد سعید کی عمران خان کے ہاتھوں چیخوں کی بات پورے عوام کے سامنے کرتے ہوئے انہوں نے شاید ہی شرم کی ایک ہلکی سی رمق محسوس کی ہو۔ انسان انسانیت سے اس سے زیادہ نہیں گر سکتا۔

خواجہ آصف اسمبلی کے مقدس مقام پر کھڑے ہو کر شریں مزاری کو ٹریکٹر ٹرالی کہتا ہے لیکن آج مریم اورنگزیب صاحبہ جس کو عمران خان کا بلاول کو صاحبہ کہنے پر شدید دکھ ہے کا کوئی بیان سامنے نہیں آتا۔

حتیٰ کہ کچھ روز پہلے مراد سعید کے اسمبلی میں خطاب کے دوران مریم اورنگزیب رانا ثناءاللہ اور مسلم لیگ کی سینئر قیادت ڈسک بجاتے ہوئے ”نو بے بی نو“ جسے الفاظ دہرا رہی تھی۔

ایک شرابی دوسرے شرابی کو برا کیسے کہہ سکتا ہے۔ ایک چور دوسرے چور کو کیسے غلط بول سکتا ہے؟ لیکن ہمارے سیاستدانوں کے کتاب میں سب جائز ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).