بے لگام پاورسنٹرز کے آگے بے بس حکمران۔۔۔۔


ملک میں جس تیزی سے وزارتیں اوراداروں کے سربراہان تبدیل کئے جارہے ہیں اس سے تو یہ تاثرمل رہا ہے کہ جیسے حکومتیں اوران کے “خیرخواہ وپشت پناہ” ملکی مسائل کا کوئی سنجیدہ حل نکالنا چاہ رہے ہیں۔ ان فیصلوں کے باوجود لوگوں میں اضطراب ہے کہ بڑھتا ہی جارہا ہے خصوصا خیبرپختونخوا کے لوگ جو نہ صرف اس حکومت بلکہ اس سے پہلے کے پانچ سال بھی تحریک انصاف کی حکومت کو دیکھ چکے ہیں زیادہ بے چین ہیں۔

انہیں تو یہ بھی یاد ہے کہ تحریک انصاف کی اس سابق صوبائی حکومت نے جسے پورے پاکستان کے لئے مثال بناکرپیش کیا جاتا تھا کے کریڈٹ پرجو سب سے بڑی کارکردگی ہے وہ ہے پشاورمیں مسلسل زیرتعمیرمیٹروبس سروس کامنصوبہ بی آرٹی۔ بلاشبہ تحریک انصاف کے حکومتوں میں آنے کے بعد سے یہ سب سے بڑا ایسا منصوبہ ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ ملک میں اس کی سیاسی وانتظامی بصیرت کا ایک ایسا شاہکار ہے جوا سکے نام کے ساتھ ہمیشہ یاد رکھاجائے گا .

تاہم یہ چھ ماہ کی مقررہ مدت تو کیا دوسال میں بھی مکمل نہیں ہوپایا عام لوگ اور دانشور اس کے فائدے اورنقصان کے بارے میں جاری مباحثوں میں کسی حتمی نتیجے تک نہیں پہنچ پاتے کہ جب یہ مکمل ہوگا تو اس کا پشاورمیں سفر کرنے والے زیادہ لوگوں کو فائدہ ہوگا یا نقصان۔ ایک طرف تو وہ لوگ ہونگے جواس منصوبے کے گرد لگے” جنگلوں “کے اندرچلنے والی بسوں میں سفر کرینگے تودوسری طرف ان “جنگلوں “کے باہرسڑکوں پرچلنے والی گاڑیوں میں لوگ خود سے بھی سفرکررہے ہونگے بسوں کے اندر بیٹھنے والے لوگ توسکون سے ائرکنڈیشنڈ بسوں میں محو سفرہونگے لیکن اس منصوبے کے باہرچلنے والوں کوراستہ کھلا ملے گا یا نہیں اس کا جواب ابھی کسی کے پاس نہیں۔

منصوبے کے اردگردٹریفک جام روز کا معمول ہے جس سے ان خدشات کو تقویت مل رہی ہے کہ مستقبل میں بھی صورتحال میں بہتری کی امید نہ رکھی جائے۔ صوبے کے سابق وزیراعلی اورموجودہ وزیردفاع پرویز خٹک صاحب نے اس منصوبے کو شروع کرتے وقت اسے پاکستان بھر کا سب سے کم مدت اورکم لاگت میں پورا ہونے والا منصوبہ قراردیاتھا لیکن کم مدت کا خواب پورا نہ ہوسکا اورچھ ماہ کی بجائے دوسال گذرچکے اورابھی کام جاری ہے۔

عام لوگوں کی حالت یہ ہے کہ اب تو وہ مذاق میں بھی بی آرٹی کے استعارے استعمال کرتے ہیں کہ “اللہ خیر، حکومت کا دھیان کسی نئے منصوبے کے شروع کرنے کی طرف نہ چلاجائے”اس ایک مذاق یا مزاحیہ فقرے میں پوری کہانی سمٹ چکی ہے کہ لوگ جو حکومتوں کی جانب سے پراجیکٹس شروع کرنے کے منتظرہوتے ہیں اب یہاں کے لوگ اس سے خوف محسوس کرتے ہیں۔

یہ تو اس صوبہ خیبرپختونخوا کی حالت ہے جہاں پرپیسوں کی یقینی کمی اورتقسیم” حکومتی پاورسنٹرز”کی بدولت کوئی ایسا بڑا کام ہوتا بھی نظرنہیں آرہا جس کا کریڈٹ اب تحریک انصاف وفاق توایک طرف صوبے کی سطح پر بھی کلیم نہیں کررہی۔

سابق صوبائی حکومت میں ایک خوبی تو تھی کہ اس میں اختیارسابق وزیراعلی پرویزخٹک کے پاس تھا اب تو پارٹی کی اندرونی سیاست اورکمزوریوں کی بدولت حالت یہ ہے کہ وزیراعلی محمود خان ہیں، عاطف خان اورشہرام خان سے لے کرگورنرشاہ فرمان، پرویزخٹک اورسپیکرقومی اسمبلی اسد قیصرسب الگ الگ پاورسنٹرز ہیں۔ لگتا ہے کہ یہ سب اس صوبے پراپنی گرفت کمزورکرنے کو تیارنہیں۔اس سارے عمل نے اس صوبے کو جسے تحریک انصاف گذشتہ ادوارمیں اپنا سب سے مضبوط اورپکا قلعہ کہہ کرپکارتی تھی اب حالت یہ ہے کہ کوئی کارکردگی اورگورننس کا نام بھی نہیں لیتا۔

تحریک انصاف کے اس بظاہر “مضبوط”گڑھ میں مندرجہ بالا پاورسنٹرز میں سے ہرایک کا دعوی ہے کہ وہ عمران خان کے سب سے قریب ہے اوراس دعوے کو تقویت ان کی وزیراعظم عمران خان کے ساتھ منظرعام پر آنے والی تصویروں سے ملتی ہے جس کا موقع وہ شایدخود انہیں دیتے ہیں۔

صوبے سے وفاق میں جھانکا جائے تو صورتحال وہاں بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ وفاقی حکومت کو اپنے وزرا کو فارغ کرکے ایسے لوگوں کو اہم ترین وزارتوں اوراداروں کے سربراہان کے طورپرقبول کرنا پڑرہا ہے جن کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ اسد عمر کی جگہ حفیظ شیخ ہوں یا نئے گورنرسٹیٹ بنک اورچیئرمین ایف بی آر، ان میں سے کوئی بھی تحریک انصاف کا اپنا نہیں۔ اہم حکومتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ چین نے دوایسے وفاقی وزرا کے ساتھ کام کرنے سے انکار کرکے انہیں ہٹانے کا مطالبہ کردیا ہے جن کا براہ راست واسطہ ہی سی پیک کے منصوبے سے ہے.

مرکزی حکومت کے اپنے “پاورسنٹرز”گردانے جاتے ہیں جن میں تحریک انصاف کے اندر کے مضبوط لوگ خصوصا جہانگیرترین سرفہرست ہیں کہتے ہیں کہ نوکرشاہی بھی پوری طرح بے قابو ہے، ایک پاورسنٹراسلام آباد کے ہمسائے میں اوربھی ہے جس کا نام لے لے کرکہا جاتا ہے کہ فیصلے وہاں سے آتے ہیں اوریہ باتیں بھی ہورہی ہیں کہ پریشانی کے عالم میں وزیراعظم عمران خان صاحب اب لوگوں سے کم ہی ملتے ہیں اوران کی پریشانی کی گواہی تو ملک کے صدرعارف علوی بھی دے چکے ہیں.

اب جب معاملات کو ایسے چلایا جارہا ہو تو ایسے میں کوئی یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ موجودہ حکومت مسلم لیگ ن کی سابق حکومت سے بہتر ہے کیونکہ آپ کے بقول ان کا تو جرم ہی ملک پرقرضے بڑھانا تھا تو اب آپ بھی تویہی کررہے ہیں۔ایسے میں وزیراعظم عمران خان کواپنی مستقبل کی سیاست بچانی ہے تواپنے بارے میں بننے والے تاثرکوبدلنے کے لئے فوری کچھ کرنا ہی ہوگا۔

بشکریہ روزنامہ مشرق


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).