معدوم ہوتی روایات


سچ تو یہ ہے کہ وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ ثبات دھوکہ ہے۔ تغیر حقیقت۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ چپکے سے معدوم ہوتا رہتا ہے۔ روزمرہّ زندگی کی الجھنوں میں گھرے مگر ہمیں بہت سی اشیاء اور روایات کے ختم ہوجانے کا احساس تک نہیں ہوتا۔ ہم انہیں انگریزی زبان والے Taken for Granted لیتے ہیں۔ اچانک ان اشیاء اور روایات کی معدومیت ’’دریافت‘‘ ہوجائے تو اداسی لاحق ہو جاتی ہے۔

گزشتہ ہفتے میرے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ ہوا۔ پیشہ وارانہ مجبوریوں اور ذمہ داریوں کی وجہ سے گزشتہ دو ماہ سے ہر ہفتے مجھے تین دن کے لئے لاہور جانا ہوتا ہے۔ جمعرات کی صبح اُٹھ کر اپنے گھر آئے اخبارات کے پلندے کو سامان کے ہمراہ لے کر راولپنڈی میں ایک مشہور بس سروس کے اڈے کو چلاجاتا ہوں۔ وہاں سے لاہور کے لئے 10:30پر جانے والی بس میں میری نشست بک ہوتی ہے۔اس ضمن میں آئے SMSکو کائونٹر پر دکھا کر ٹکٹ لیتا ہوں۔

بس جب منزل کی جانب چل پڑے تو اخبارات کے پلندے سے رجوع کرتا ہوں۔یکے بعد دیگرے اُردو اور انگریزی اخبارات کے تقریباََ تمام صفحات پڑھتے ہوئے سفر اطمینان سے گزر جاتا ہے۔ میں خود کو ’’باخبر‘‘ رہا بھی محسوس کرتا ہوں۔ گزشتہ ہفتے کی جمعرات مگر یہ پلندہ اپنے ساتھ لے جانا بھول گیا۔ اپنی لغزش کا احساس مگر اس وقت ہوا جب گھرلوٹ کر وقت پر بس اڈے پر پہنچنا ممکن دکھائی نہ دیا۔ خود کو یہ سوچتے ہوئے تسلی دی کہ بس اڈے پر یقینا اخبارات بھی میسر ہوں گے۔ وہاں کتابوں کے ایک سٹال کی موجودگی کا مجھے علم تھا۔ بس اڈے پر پہنچ کر اپنی ٹکٹ کٹوالی تو وہاں موجود کتابوں کے سٹال پر ایک اخبار بھی میسر نہیں تھا۔

فرض کر لیا کہ وہاں جو اخبارات فروخت کے لئے رکھے گئے ہوں گے وہ علی الصبح بک گئے۔ احتیاطاََ اپنی اس سوچ کو کنفرم کرنا چاہا تو سٹال والے نے مسکرا کر جواب دیا کہ وہ اخبارات نہیں بیچتے۔ ساتھ ہی یہ اطلاع بھی دی کہ اس اڈے پر اخبارات فروخت کرنے والا کوئی اور کھوکھا بھی نہیں ہے۔ میں بہت اداس ہو گیا۔ مزید حیرانی اس عالم میں مسافروں کے لائونج میں بیٹھے لوگوں کو دیکھ کر بھی ہوئی۔ کم از کم سوکے قریب خواتین و حضرات اس لائونج میں موجود تھے۔ کسی ایک کے ہاتھ میں بھی کوئی اخبار نہیں تھا۔

موبائل فون بھی فقط گفتگو کے لئے استعمال ہورہے تھے۔ نظر بظاہر یہ واقعہ معمولی تھا مگر میرے دل کو دھچکہ لگا۔ ذہن میں اپنے بچپن کے شہر لاہور کے وہ تمام ’’تھڑے‘‘ فلم کی طرح چلنا شروع ہوگئے جن پر فجر کی نماز کے بعد سے اخبارات بڑی احتیاط سے ’’سجا‘‘ کر چند لوگ بیٹھ جایا کرتے تھے۔ اپنے گھر سے اندرونِ لاہور واقعہ رنگ محل کے مشن ہائی سکول تک جاتے ہوئے کم از کم پانچ ایسے سٹال یاد آئے۔

وہاں بیٹھ کر اخبار بیچنے والوں کی صورتیں اور نام بھی یاد آ گئے۔ خاص طورپر ایک بہت ہی شفیق بزرگ جو پرانی کوتوالی چوک سے اعظم مارکیٹ کی عمارت کے ساتھ موجود ایک بہت ہی تنگ گلی کے ذریعے شیرانوالہ دروازے تک پہنچانے والے راستے کی ایک عمارت کے نیچے موجود تھڑے پر اخبارات رکھے بیٹھے ہوتے تھے۔

میں اکثر سکول سے گھر لوٹتے ہوئے وہاں رُک جاتا تھا۔ بچوں کے لئے خاص طورپر شائع ہونے والے کئی رسالے میں وہاں رُک کر مفت میں پڑھ لیا کرتا۔ میٹرک تک پہنچتے ہوئے یہ سلسلہ فلمی،سیاسی اور خواتین کے لئے شائع ہونے والے ہفت روزہ رسالوں تک بڑھ چکا تھا۔خود کو یقین دلایا کہ شاید لاہور میں اخبارات اور رسالوں کی فروخت کے لئے ایسے تھڑے اب بھی موجود ہوں گے۔ لاہور کے بس اڈے پر پہنچ کر میرا یہ گماں بھی غلط ثابت ہوا۔

ہوٹل کے کمرے میں تنہابیٹھنے یا لیٹے رہنے سے مجھے وحشت ہوتی ہے۔لاہور میں یہ وحشت زیاد شدت سے محسوس ہوتی ہے۔ میری وحشت کو ذہن میں رکھتے ہوئے میری بہن اپنے ڈرائیور کو ہر صبح اس ہوٹل بھیج دیتی جہاں میرا قیام ہوتا ہے۔ میں بستر سے اٹھ کراس کی ہمراہی میں بہن کے گھر پہنچ جاتا ہوں۔آنکھ کھلتے ہی اخبار دیکھنا میرے لئے سانس لینے کی طرح ضروری ہے۔ جس ہوٹل میں قیام ہوتاہے وہاں کچھ اخبارات صبح کی چائے کے ساتھ ’’ویک اپ‘‘ کال دینے کے بعد بھجوادئیے جاتے ہیں۔

میری ان ’’چند‘‘ اخبارات سے مگر تسلی نہیں ہوتی۔ اپنی بہن کے گھر جاتے ہوئے بقیہ اخبارات خرید لیتا ہوں۔لاہور کے گلبرک میں واقعہ ہوٹل سے نکل کر ڈیفنس کی طرف جاتے ہوئے کافی دیر بعد ایک مقام آتا ہے جسے میرے بچپن کے دنوں میں 7-up پھاٹک کہاجاتا تھا۔ ان دنوں خبر نہیں کیا پکارتے ہیں،وہاں ایک اوور ہیڈپل کے نیچے موجود فٹ پاتھ پر فقط ایک پوائنٹ ہے۔ وہاں لکڑی کے تخت پر اخبارات اسی ترتیب کے ساتھ ’’سجا‘‘ کر فروخت کے لئے رکھتے ہوتے ہیں جیسے میرے بچپن میں نظر آیا کرتے تھے۔ میں وہاں رُک کر اپنی ضرورت کے بقیہ تمام اخبارات خریدتا ہوں۔

عجب اتفاق یہ بھی ہے کہ وہا ں اخبارات فروخت کرنے والے کی عمر، صورت اور لمبی سفید داڑھی بھی من وعن اس شفیق بزرگ جیسی ہے جس کے تھڑے پر رُک کر میں سکول سے گھر لوٹتے ہوئے رسالے پڑھاکرتا تھا۔اس کی موجودگی یقین دلا دیتی ہے کہ ’’میرے‘‘ لاہور کی چند روایات اب بھی زندہ ہیں۔ معدومیت کا ماتم ضروری نہیں۔ روایات مگر بتدریج معدوم ہورہی ہیں۔ ان سے Reconcileکرنا ہو گا۔ معدوم ہوتی اشیاء کے مقابلے میں جو ابھررہا ہے اس کا ادراک ضروری۔

اس حوالے سے خیال آیا کہ غالبؔ شاعر ہوتے ہوئے بھی ’’نئے‘‘ کو خوش دلی سے تسلیم کرنے میں کس قدر تیار رہا۔ اپنے خطوط میں اکثر 1857کے بعد ’’ہائے دلی، وائے دلی، بھاڑ میں گئی دلی‘‘ لکھ دیتا تھا۔ تاسیف کے اس اظہار کے ساتھ ہی مگر اس نے سر سید احمد خان کو ڈانٹ دیا جب بہت تحقیق کے بعد وہ موصوف سے دلی کی گرتی ہوئی چند تاریخی عمارتوں کے بارے میں لکھی اپنی کتاب ’’آثار الضادید‘‘ کا دیباچہ لکھوانے آئے۔ غالبؔ نے دیباچہ تو بددلی سے لکھ دیا مگر سرسید کو بہت درشتی سے سمجھایا کہ گزرے وقت کے ماتم میں وقت ضائع نہ کرو۔

انگریزوں کے عروج پر غور کرو۔ دریافت کرو کہ بھاپ سے ریل کا انجن چلانے والی اس قوم کی ترقی کا اصل راز کیا ہے۔ مجھے گماں ہے کہ یہ واقعہ نہ ہوا ہوتا تو شاید سرسید احمد خان بالآخر علی گڑھ یونیورسٹی نہ بناتے۔ وہ یونیورسٹی قائم نہ ہوتی تو…بات لمبی ہوجائے گی۔ دُکھی دل کے ساتھ عرض صرف یہ کرنا ہے کہ ’’نئے‘‘ سے گزارہ کرنا ہو گا۔

تھڑوں سے اخبار خریدنے کا زمانہ لد گیا۔ ’’خبر‘‘ کی تلاش مگر اب بھی ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ آج کا صحافی ’’خبر‘‘ ڈھونڈ رہا ہے یا نہیں؟ جانے کیوں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہرگز نہیں۔ ’’خبر‘‘ کی تلاش جاری ہوتی تو اب تک مجھے یہ علم ہوگیا ہوتا کہ ’’اچانک‘‘ آئی ایم ایف چھوڑ کر ڈاکٹر رضا باقر کس طرح وزیراعظم عمران خان سے رابطے میں آئے اور راتوں رات سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر تعینات ہو گئے۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).