ڈیل اور ڈھیل ختم۔۔۔


یہ سچ ہے کہ 1999 میں فرار ہو جانے کے طعنے آج بھی نواز شریف کا پیچھا کرتے ہیں۔
نہ تو اب 1999 ہے کہ ڈیل ہو، اور نہ ہی اس وقت ملک میں مارشل لا نافذ ہے۔

لنگڑی لولی ہی سہی، ایک عدد جمہوری حکومت موجود ہے۔ نہ ہی عدلیہ پی سی او کی پیداوار ہے، نہ ہی میڈیا پر بظاہر کوئی پابندی ہے۔ کم از کم اپوزیشن پر تنقید کرنے کی تو بالکل کوئی پابندی نہیں ہے، پھر نواز شریف باہر جاتے تو کیسے جاتے؟

نون لیگ کے اندر کی آوازوں، باہر کے شور اور مزاحمتی سیاست کے دباؤ نے شہباز شریف کی اچھی خاصی ڈیل کو بھی پسِ پشت ڈال دیا۔ یہاں تک کہ شہباز کو پرواز اور مریم کو آواز اٹھانے کا موقع مل گیا ہے۔

اگر کوئی این آر او تھا بھی تو عدالت عظمی اس کے بہاؤ میں نہیں آئی، میاں صاحب کی ضمانت کی توسیع کی اپیل مسترد ہوئی اور بڑے میاں صاحب کی جیل واپسی کی تیاری ہو گئی۔

شہباز شریف نے گذشتہ کچھ عرصے میں بھر پور کوشش کی کہ بات بن جائے اور ’میں ہوں نا‘ کے مصداق وہ نواز شریف کو یہ منوانے میں کامیاب ہو گئے کہ وہ خاموش رہیں، اپنے بیانیے کا قطعی اظہار نہ کریں، اُن کی صاحبزادی سوشل میڈیا پر متحرک نہ ہوں، 23 مارچ کو سوشل میڈیا پر دی گئی کال کو بھی واپس کرایا گیا کہ اب کوئی شرارت نہیں ہو گی، بس چُپ چپیتے پھرتے رہیں اور مصالحت کی راہ پر گامزن ہوں۔

بلکہ ایسے ہو جائیں کہ جیسے کبھی مزاحمتی سیاست کی ہی نہیں تھی، شہباز شریف اس دوران بڑے بھائی کو سمجھاتے رہے کہ ‘میں ہوں نا۔’

شہباز شریف تو ہمیشہ اداروں کا احترام کرتے ہیں اور اس حد تک احترام کہ تنہا کمرے میں بھی سرگوشی نہیں کرتے۔ اُن کی یہی ادا اداروں کو پسند ہے تاہم اب ادارے بھی بے بس ہیں اور کچھ لو اور دو کی بنیاد پر ابھی سیاست کو چلانا چاہتے ہیں۔

یہ چل چلاؤ کب تک ہے اس کا فیصلہ ستمبر کے بعد کیا جا سکتا ہے۔

شہباز شریف کو اپنے مؤقف سے کسی حد تک پیچھے ہٹنا پڑا ہے اس کی دو اہم وجوہات میں سے ایک جماعتی دباؤ اور دوسرا بلاول بھٹو کی جارحانہ سیاست ہے۔

نون لیگ کے ناراض کارکن اپنی جماعت کی پالیسی کی بجائے بلاول بھٹو کے پیچھے چلتے دکھائی دیے، الجھے ہوئے وسطی پنجاب کے کارکنوں کو بلواسطہ راہنمائی بلاول سے ملنا شروع ہوئی تو مریم نواز کو بھی حوصلہ ملا۔

باپ سے جذباتی وابستگی کے باوجود مریم نواز نے باپ کو اور جماعت کو باور کرانا شروع کیا کہ پسپائی میں رہائی نہیں بلکہ کسی حد تک جارحانہ سیاست جماعت کو مضبوط بنا سکتی ہے ورنہ جماعت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی۔

باوجود اچھے سلوک کے خاندان کے خلاف کارروائیوں نے شہباز شریف کو ہی نہیں بلکہ چوہدری نثار کو بھی بہت کچھ سمجھا دیا۔ شہباز شریف کو وقتی طور پر ہی سہی مگر لندن جانا پڑا اور یوں باہمی رضامندی سے جماعت کے انتظامی فیصلے طے پائے۔

ملکی سیاست میں آنے والے دنوں میں اہم فیصلے سامنے آنا ہیں۔ ایک طرف آئی ایم ایف کے ساتھ ممکنہ طور پر طے ہونے والا معاہدہ ہے جس کی شرائط عوام کی واقعتاً چیخیں نکال سکتی ہیں۔

ایسا ہوا تو عوامی غیض و غضب محض حکومت تک ہی محدود نہیں رہے گا۔

بجٹ کے بعد پنجاب میں بزدار صاحب کی تبدیلی کے امکانات اور فاٹا بلدیاتی انتخابات اہم تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔ مہنگائی اور بڑھتی بے یقینی خصوصاً پنجاب میں حکومت کی ‘سمت’ طے کر چکی ہے۔ مقتدر حلقے پنجاب کے وزیرِ اعلی کو وزیر اعظم کے پلس کرنے کے باوجود مائنس کر رہے ہیں۔

شہباز شریف پنجاب سرکار کی کمیٹی ڈالنا چاہتے ہیں تو دوسری جانب بلدیاتی قانون سازی پرویز الہی اور مونس کے غصے کو بڑھاوا دے گئی ہے۔

نون ليگ کی سیاست اب مریم کے ہاتھوں میں ہے۔ ادھر بلاول ایک پختہ سیاست دان کے روپ میں تیر کمان میں ڈال چکے ہیں، مونس الہی نوجوان سیاست دانوں میں اہم اضافہ بن چکے ہیں۔

ایسے میں اگست ستمبر میں بننے والی یہ تکون اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔ اکتوبر تک موجودہ حکومت پر مضبوط ہاتھ رکھا جائے گا ورنہ دسمبر میں نئی فو جی قیادت کو تو آنا ہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).