دوسروں پر حکم لگانے والے جج صاحبان کے نام


میں عمران خان کو پسند کرتا ہوں۔ ان کی سیاسی فکر کو بالکل پسند نہیں کرتا۔ دونوں باتوں کی وجوہات مختلف ہیں۔

میں نواز شریف کو بھی پسند کرتا ہوں۔ ان کی سیاسی فکر کو جزوی طور پر پسند یعنی بالفاظ دیگر جزوی طور پر ناپسند کرتا ہوں۔ یہاں بھی وجوہات علیحدہ علیحدہ ہیں۔

میں آصف زرداری کو پسند نہیں کرتا۔ ان کی سیاسی فکر کو مکمل طور پر پسند کرتا ہوں۔ ظاہر ہے اس کی بھی وجوہات مختلف ہیں۔

میں سراج الحق کو پسند کرتا ہوں۔ ان کی سیاسی فکر کو بالکل بھی پسند نہیں کرتا۔ وجوہات یہاں بھی جدا جدا ہیں۔

آپ کو اس ”منافقت“ سے الجھن ہوتی ہے؟ جو بڑھ کر اچھی خاصی تکلیف بن جاتی ہے؟

آپ میرے چاروں طرف موجود ہیں۔ آپ میرے دوست ہیں، محلے دار ہیں، رشتے دار ہیں، کولیگ ہیں۔ اس لئے آپ سے واقف ہوں اور جانتا ہوں کہ آپ کی یہ کیفیت ہوتی ہے۔

مائنڈ نہ کریں تو ایک بات کہوں، آپ کی اس تکلیف کا سبب آپ کی عجلت پسندی ہے۔ آپ بہت جلدی انصاف پسند جج بن جاتے ہیں۔ ستم بالائے ستم کہ مقدمے کو جاننے، پرکھنے سے پہلے نتیجے پر بھی پہنچ جاتے ہیں اور فیصلہ سنا دیتے ہیں۔

آپ میری کہانی سے مکمل ناواقفیت کے باوجود اپنا منہ بند نہیں رکھ پاتے۔ کچھ نہ کچھ منہ سے نکال ہی دیتے ہیں۔ کیونکہ اکثر آپ خود کو منصب قضا پر فائز کیے رکھتے ہیں اگرچہ اکثر آپ کو خود بھی احساس نہیں ہوتا کہ آپ جج بنے ہوئے ہیں۔

جو آپ کہتے ہیں وہ اکثر غیر متعلق اور بیکار ہی ہوتا ہے کہ نہ آپ کو منہ کھولنے کی وجہ پتہ ہوتی ہے اور نہ اس بات سے کلی طور پر آگاہ ہوتے ہیں جس پر منہ کھولا ہوتا ہے۔

اس پر میرا ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟

ہو سکتا ہے پہلی بار تو آپ کی رائے کو نظر انداز کر دوں۔ یا پھر محض یہ کہہ دوں کہ آپ غلط سمجھے۔ آپ نے اصرار جاری رکھا تو ”رب راکھا“ کہہ کر دور ہو جاؤں گا۔ آپ اگر زیادہ ہی جذباتی ہو گئے تو پھر آپ سے فاصلہ قائم رکھنے کے لئے باقاعدہ ”اہتمام“ کرنا پڑے گا۔

یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت نہ پڑے اگر آپ ایک دو بنیادی اور آفاقی حقائق ذہن نشین کر لیں۔

اولاً کہ دنیا میں جو کچھ جہاں کہیں بھی ہو رہا ہے وہ ہماری اجازت اور منشا کے بغیر ہو رہا ہے اور ہم اس کے برے بھلے نتائج کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ جب ذمہ دار نہیں تو خواہ مخواہ ”ذیلدار“ یا ٹھیکیدار بننے کی بھی ضرورت نہیں۔

ثانیاً، انسان متنوع ہوتے ہیں۔ شکل و صورت اور رنگ روپ میں مختلف ہونے کے باوجود چہرے کے اجزائے ترکیبی یعنی کان ناک آنکھیں ماتھا تو سب کے چہرے کا ہی حصہ ہوتے ہیں۔ اصل انسانی تنوع سے مراد ان کے نظریات، عقائد، خیالات، طرزِ فکر اور پسند ناپسند میں ورائٹی ہے۔

یہ ورائٹی یا تنوع مسئلہ نہیں، خوبصورتی ہے۔ حسن ہے انسانی سماج کا۔ اس کا احترام اور اس سے پیار ہی انسانیت کا احترام اور انسانوں سے پیار سکھاتا ہے۔

”یک رنگی“ جانوروں کی رہتل کی پہچان ہے۔ حیوانی بستیاں یعنی جنگل جانداروں کی واحد مشترک جبلت ”بقا“ پر قائم ہوتی ہیں۔

انسانی سماج کی پہچان رنگا رنگی ہے۔ تنوع ہے۔ ورائٹی ہے۔ اعلی آدرش ہیں۔ ترقی کی امنگیں ہیں۔ بقا کی پیدائشی جبلت پر غلبہ پا کر اعلی اور اجتماعی مقاصد کے حصول کے لئے ہر طرح کی قربانی کے لئے آمادگی ہے۔ یہی رنگارنگی انسانی سماج کو ”حیوانوں کی بستی“ سے ممیز و ممتاز کرتی ہے۔

ان امنگوں کو پورا کرنے کے لئے اور ان آدرشوں کے حصول کے لئے درکار واحد قدر رواداری یا برداشت ہے۔

لہذا اگر نوک زباں پر تلخ جملہ، گالی یا بددعا دھری ہے تو اسے باہر مت نکالئے کہ یہ عمل فضا کو زہر آلود کر دے گا۔ واپس نگل لیجیے تو یہی مسموم الفاظ امرت ثابت ہوں گے۔ ان کے صحت بخش اثرات برداشت کرنے والے اور سماج دونوں پر مرتب ہوں گے۔

ہمیں اپنے لئے بالعموم اور اپنے بچوں کے لئے بالخصوص متنوع، روادار، ہمت افزا اور محفوظ سماج درکار ہے۔ اس کی تعمیر کب اور کیسے ہو پائے گی، اس سوال کا جواب ہمارے ردعمل اور الفاظ کے انتخاب میں موجود ہے۔

پس نوشت: بات سمجھانے کے لئے مضمون کے شروع میں سیاست کی مثالیں دیں۔ یہی مثالیں مذہبی، ثقافتی، علاقائی، لسانی اور دیگر حوالوں سے بھی دی جا سکتی ہیں۔

مضمون مکالمے کی شکل میں ہونے کے سبب ”آپ“ کو مخاطب کرتا نظر آتا ہے۔ یہ ”آپ“ صرف آپ نہیں، میں بھی ہوں، ہم سب ہیں۔ ہم سب رواداری کی راہ سے بھٹکتے رہتے ہیں۔ اس طرح کی یاد دہانیوں کا مقصد گم کردہ راہ کو پھر سے پانے کی خواہش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).