ایک بچی، دو تصویریں اور ریاست کی بے حسی


ایک چار سالہ بچی فیڈر ہاتھ میں تھامے کھڑی ہے۔ اس نے نئے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ بال سلیقے سے بنے ہوئے ہیں اور ان میں کلپ لگا ہوا ہے۔ اس کی ماں نے بہت توجہ اور پیار سے اپنی ننھی پری کو تیار کیا ہے۔ اسے وہ شادی میں لے کر جا رہی تھی۔

ایک دوسری تصویر ہے۔ ایک بچی نے اپنے دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے ہیں۔ اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں۔ کسی نے انہیں نہیں سنوارا ہے۔ بال پیشانی پر بے ڈھنگے پن سے کٹے ہوئے ہیں۔ اس نے کھلی آستین والی قمیض پہنی ہوئی ہے۔ یہ لگتا ہے کہ اس نے اپنے جوڑے ہوئے ہاتھ نیچے لٹکائے تو آستینیں اس کے ہاتھوں سے بڑی ہوں گی۔ شاید اس نے کسی بڑی بچی کی قمیض پہن رکھی ہے۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اس پری کو سجانے سنوارنے والا اب کوئی نہیں ہے۔ اس کی ماں، بڑی بہن اور باپ کو پولیس کئی ماہ پہلے قتل کر چکی ہے۔ اب اس کی وہی حالت ہے جو ایک یتیم و یسیر بچی کی ہوتی ہے۔

یہ بچی ہاتھ جوڑے پنجاب اسمبلی کے باہر بیٹھی ہے۔ وہ اپنے ماں باپ اور ان سے بڑھ کر خود اپنے اور اپنے زندہ بچ جانے والے بہن بھائی سے ساری زندگی ہونے والے ظلم پر ریاست سے انصاف کی بھیک مانگ رہی ہے۔

اسے انصاف ملنا ناممکن ہے۔ ”کولیٹرل ڈیمیج“ کے لئے کوئی انصاف نہیں ہوتا۔ کیڑوں مکوڑوں کے لئے انصاف کا تصور نہیں ہے۔ انہیں پاؤں کے نیچے مسل کر بھول جایا جاتا ہے۔ انہیں زندگی گزارنے کے لئے کچھ پیسے مل جائیں تو اسے ہی غنیمت جانیں۔

ہم حقیقت پسند ہیں۔ یہ سمجھتے ہیں کہ انصاف کرنا حکومت کے بس میں نہیں ہے۔ اس کے پر جلتے ہیں۔ لیکن حکومت کچھ شرم کرے اور تینوں بچوں کو اپنا اپنا گھر اور پچیس سال کی عمر تک وظیفہ دے۔ ان کی تعلیم کے اخراجات اٹھائے۔ ان کی خبر گیری کے لئے بندوبست کرے۔ لڑکیاں بڑی ہوں تو ان کی شادی اپنے ذمے لے۔ یہ اس کے بس میں ہے۔

ان بچوں کو جو تین کروڑ کے امدادی چیک دیے گئے ہیں کیا یہ رقم انہیں نصیب ہو گی یا ورثا ہڑپ کر جائیں گے؟ کیا یہ چیک کیش بھی ہوئے ہیں یا حسب روایت باؤنس ہو گئے ہیں؟ یہ ابھی بھی اس لاچارگی میں پنجاب اسمبلی کے سامنے ہاتھ جوڑے کیوں پڑے ہیں؟

ریاست ان بچوں کے والدین کو لوٹانے سے قاصر ہے۔ ساری زندگی انہیں کابوس دکھائی دیں گے جن میں ان کے ماں باپ ان کی آنکھوں کے سامنے پولیس سے رحم کی بھیک مانگتے تڑپ تڑپ کر مر رہے ہوں گے۔ گولیوں کی مہیب آوازیں انہیں گہری نیند سے جگاتی رہیں گی۔ وہ اپنی موت تک ہر گھڑی زہر پی پی کر جئیں گے۔ اس کا کوئی حل نہیں ہے۔ لیکن ریاست کم از کم اتنا تو کر دے کہ انہیں رہائش اور گزر بسر کے لئے کسی کی محتاجی نہ ہو۔

اسی بارے میں

ساہیوال: کیا پنجاب حکومت جھوٹ بول رہی ہے؟

ساہیوال اور آرمی پبلک سکول پر اتنا شدید عوامی رد عمل کیوں ہوا؟

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar