ضیعف العمری کی نحیف آوازیں


دنیا میں سینئر شہریوں کا احترام کیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ دُنیا بھر کے دانشوروں کو اس سوچ و بچار کی دعوت دے رہی ہے کہ دُنیا بھر کے ضعیف العمر شہریوں سے کس طرح استفادہ کیا جائے کہ وہ اپنے ملک کے لئے کسی طور کارآمد ہو سکیں کیونکہ اگر عمر رسیدہ افراد کو کارآمد نہیں بنایا گیا تو آنے والے چند ہی برسوں میں ساٹھ سال یا اُس سے زائد عمرکے افراد کی بڑھتی ہوئی شرح کے سبب عالمی بحران کا سامنا لازمی ہو گا۔

پاکستان کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ اس ضمن میں پاکستان کے چند اداروں نے انتظامات کر رکھے ہیں کہ ساٹھ سالہ یا اُس سے زائد عمر کے بزرگوں کا احترام کیا جائے اور اُنھیں کسی قسم کی تکالیف سے دو چار ہونا نہ پڑے اس سلسلے میں جب ہمارا واسطہ نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس سے پڑا تو ہم نے دیکھا کہ دونوں کے باہمی اشتراک سے سنیئر شہریوں کے لئے جو سہولیات مہیا کی ہیں اُس سے ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اب ہمیں ان اداروں کو دل اور ڈائری سے غیر مہذب ہونے کی فہرست سے خارج کردینا چاہیے ہمیں خوشی ہے کہ آہستہ آہستہ ہمارے سرکاری ادارے بھی مہذب کہلانے والے ممالک کی طرح مہذبانہ راستوں کی جانب گامزن ہیں۔

لیکن اب بھی سینئر شہری بڑھاپا الاونس کی حصولی کی خاطر در بدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں، اب بھی بزرگوں کو ریٹائرمنٹ کے بعد پنشن کے لئے سات آٹھ ماہ تک انتظار اور خالی جیب کے کربناک مرحلے سے گزرنا پڑتا ہے، پینشن کی قلیل رقم کا رونا بھی سینئر شہریوں کا مقدر بن چکا ہے گو کہ (ای او بی آئی) ایمپلائز اولڈ ایج بینفٹ جیسا محکمہ بھی اصلاحات کی جانب بڑھتا نظرآ رہا ہے۔

لیکن پھر وہ کون لوگ ہیں جنھوں نے سینئر شہریوں کی زندگیوں کو آسان بنانا ہے؟ تو پھر سُن لیجیے کہ یہ وہ ہیں جن کی وجہ سے ادارے وجود میں آتے ہیں، جن سے معاشرہ پنپتا ہے۔ جن کے پیغامات عوام کی بالائی تا زیریں سطح تک سرایت کرتے ہیں۔ جو اس ملک میں دودھ و شہد کی نہریں بہانے کے دعوئے کرتے ہیں۔ جنھوں نے دوہرے معیار کو اپنا شعار بنا رکھا ہے یہ لوگ حکومتی کُرسی کے نشے میں عوام کے لئے رحمت کے بجائے وبال ِ جان بن جاتے ہیں۔

دراصل یہ وہ ماضی و حال کے وزراء ہیں جو اب تک غریبوں کو تعلیم کی سہولت کو آسان و یقینی بنانے اور روزگار کی فراہمی میں ناکام ہیں، ٹاک شو کے یخ بستہ کمرے میں بیٹھ کر بے شرمی سے لاکھوں روزگار کے مواقع کے دعوئے مضحکہ خیزی و جگ ہنسائی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ جہاں دُنیا آبادی میں سینئر شہریوں کے اضافے پر فکر مند ہے وہیں پاکستان کے ماضی و حال کی حکومتوں نے سینئر شہریوں کو عضو معطل سمجھ کر مسلسل نظر انداز کررکھا ہے جس کی کوکھ سے احساس ِ محرومی و افراتفری اور حقیقتاًبحران جنم لے رہاہے۔

راقم اس بات کو جذبات کے سمندر میں ڈبکیاں لگاتے ہوئے نہیں لکھ رہا ہے بلکہ مورخہ 2 مئی 2019 کو کراچی پریس کلب کی تپتی سڑک پر آگ برساتی دوپہر میں پاکستان اسٹیل کے سابقہ ملازمین عمر رسیدہ بزرگوں کو بلبلاتے اور سات سال سے ریٹائرمنٹ کے بعد واجبات کی عدم ادائیگی کا شکوہ کرتے ہوئے دیکھا ہے اورسینکڑوں سابقہ ملازمین کو سندھ ہائی کورٹ میں بے بسی اور لاچارگی کی حالت میں دھکے کھاتے دیکھا تو شرم سے پانی پانی ہوگیا۔

اقوام متحدہ کی ضعیف العمر شہریوں کے حوالے سے فکر مندی اور ہمارے حکومتی و سماجی حلقوں کی بے حسی پر اُسی پانی میں ڈوب مرنے کا احساس اُجاگر ہوا پھر سوال یہ اُبھرتا ہے کہ کیا عوام پر مہنگائی کا بم گرانے والوں نے کبھی ان بزرگوں کے متعلق سوچا ہے کہ ان کا اور ان کی فیملی کا گزارہ کس طرح ہو جن کو سات سال سے جائز واجبات کی ادائیگی نہ کی گئی ہو جن کی تنخواہیں ریٹائرمنٹ کے دوسرے دن ہی بند ہو چکی ہو، کیا کبھی فولاد سازی کے حصہ دار بزرگوں کے متعلق ان بے حس قومی و صوبائی اسمبلی کے اراکین کے دل کے کسی گوشے میں خیال آیا کہ ہاتھ پیلے ہونے کی منتظر ان بزرگوں کی بیٹیاں جائے نماز بچھائے والد کے جائزواجبات کی ادائیگی کے لئے دُعا گو ہیں، کیا آپ نے بے یارومددگار لاغر بزرگوں کو آسمان کی جانب سر اُٹھا کر رب العالمین سے گڑگڑاتے ہوئے دیکھا اور یہ کہتے سُنا ہے کہ ”اے کاتب تقدیر چین سے جینا لکھ دے۔ ہم چیونٹی ہیں ہمارا ان ہاتھیوں سے کوئی مقابلہ نہیں۔ تو ہی توہے جس نے ہاتھیوں کے جُھنڈ کے جُھنڈ کو تہس نہس کیا تو ہی ہر شے پہ قادر ہے مالک، ہم سے اب مزید گداگری کی زندگی برداشت نہیں ہوتی۔ “

سوچیں اے وزیرانِ اسلامی جمہوریہ پاکستان کہ بزرگوں کی آہیں، بد دُعائیں آپ کو دُنیا و آخرت میں مجرمان کے کٹہرے میں کھڑا کر دئینگی۔ کون سا درہے جس پر بزرگوں نے دستک نہ دی ہو۔ اسلام آباد میں قومی اسمبلی ہو یا سندھ کی صوبائی اسمبلی، سپریم کورٹ ہویا سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری، لیکن لگتا ہے کانوں میں پڑی روئیاں بھی فولاد ی ہو چکیں ہیں اب تو صرف جی ایچ کیو کی جانب پیش قدی کی ہمت کرنا باقی رہ گئی ہے۔

یکم مئی 2013 سے 30 اپریل 2019 تک پاکستان اسٹیل کے ریٹائرڈ ملازمین کی تعداد پانچ ہزار سے تجاوز کر چکیں ہیں جو جائز واجبات کے منتظر ہیں۔ دل خون کے آنسوروتا ہے جب یہ سُنتے ہیں کہ 900 سے زائد سابقہ ملازمین واجبات کی عدم ادائیگی کے باعث انتہائی کسمپرسی کی حالت میں ملک عدم سدھار چکے ہیں۔

پانچ ہزار عمر رسیدہ پاکستان اسٹیل کے سابقہ ملازمین کے جائز واجبات کی مد میں حکومت نے 17 ارب روپے کی ادائیگی کرنی ہے جو کسی بھی حکومت کے لئے کوئی مشکل اور اچنبھے والی بات نہ تھی اور نہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ جلد از جلد مظلوم ضعیف العمر سابقہ ملازمین کے جائز واجبات کی ادائیگی کریں دوسری صورت میں اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق کہ چند سالوں میں ہر پانچواں شخص ساٹھ سال یا اُس سے زائد عمر کا ہوگا، غیر متناسب شرح آبادی کے باعث وسائل کی کمی کاسامنا ہوگا جس سے عالمی بحران پیدا ہونے کا خدشہ در پیش ہے، احسن اقدامات میں سے یہ قدم قابل رشک ہوگا کہ ضعیف العمر افراد کو عضو معطل سمجھ کر بستر مرگ پرچھوڑ دینے کے بجائے اُن کی ذہانت، ہُنراور تجربے سے استفادہ حاصل کریں، سینئر شہریوں کو زندہ رہنے کے لئے اُن کی زندگی میں ہی اُن کا جائزحق ادا کر دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).