دادی اماں طلاق مانگتی ہیں


ناصر صلاح الدین صاحب نے برسوں پہلے ایک بلاگ لکھا تھا۔ جو کہیں کاغذوں میں دب گیا۔ اب جو عمر رفتہ کی گرد جھاڑنے بیٹھے تو یہ پرزہ بھی پرانے مخطوطوں سے برآمد ہو گیا۔ ناصر صاحب کا اصرار ہے کہ اب اسے شائع کر دیں۔ سمجھایا کہ چھوڑیں بھائی، رات گئی بات گئی۔ اب تو مادر ملت (ثانی) نے خود سے ایک کتاب لکھ دی ہے۔ مگر بڑے میاں کو خبط ہے کہ ان کا لکھا ایک ایک لفظ قوم کی امانت ہے۔ ادارہ “ہم سب” کو ناصر صلاح الدین صاحب سے پرانے تعلق کا پاس ہے۔ سو وضع داری نباہے دے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ تحریر پرانی ہے۔ حال کے کسی کردار یا احوال سے مطابقت محض اتفاقیہ ہو گی۔

٭٭٭   ٭٭٭

ایک تھے ’بالے میاں کی چھڑ‘۔ اور ایک تھیں ’مشتری خانم ‘ اور ایک تھے ’چیخے میاں‘۔ ’بالے میا ں کی چھڑ‘ جوانی میں ’باسٹھ تریسٹھ ‘ کہلاتے تھے کیوں؟ اس واسطے کہ جب تلک کمر میں دم رہا، آئین کی دفعہ ’باسٹھ تریسٹھ ‘ کی دل کھول کے خلاف ورزی کرتے رہے۔ اور پھر جب واقعی ’باسٹھ تریسٹھ ‘ کی منزل کو پہنچے تو اپنے مولانا طارق جمیل کا دامن پکڑ لیا۔ مولانا کہتے رہے کہ ارے یار ایسا حریفانہ نہیں کھینچ میرے دامن کو، میرا کرتا بہت قیمتی ہوتا ہے۔ نازنینوں کی انگلیاں چھوئی ہیں۔ ایک ایک تار میں عفت کے موتی ٹکے ہیں۔ لاکھوں میں بکتا ہے میرا کرتا…. دل والے آنکھوں کو لگاتے ہیں۔ مگر صاحب ’باسٹھ تریسٹھ‘ کے دل کو حقیقی لو لگی تھی۔ اورنگ زیب کی مسجد کے سائے میں سجدہ ریز ہوتے تھے تو فصلی بٹیرے کبوتر بن کر چھتری کرتے تھے۔ ہزاروں کے مجمع میں رات گئے کنٹینر سے اتر کر بنی گالہ چلے جاتے تھے۔ کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی تھی، دیکھتی آنکھوں پر پردے پڑ جاتے تھے۔ مداحین کہتے تھے، ’حضرت کچھ گھنٹوں کے لئے پردہ فرما گئے ہیں‘۔ جنہیں معلوم تھا، وہ زیر لب کہتے تھے، ’منظورتھا پردہ ترا‘۔ مگر صاحب، قدرت کو پردہ تو کیا منظور ہوتا، کچھ اور ہی منظور تھا …. اور ہونی ہو کر رہی۔ اب یہ تو پوچھو نہیں کہ کیوں چلے جاتے تھے، بھئی، معرفت کو سو راستے جاتے ہیں اور سلوک کی سو منزلیں ہیں…. بیگم پارہ، آب پارہ، چھپر پارہ، گل پارہ، مشتری پارہ، نمک پارہ …. وغیرہ، وغیرہ

تو اس بیچ میں ایک نور کا جھمکڑا مشتری خانم سمندر پار سے آئیں۔ فرنگی زبان، نازک اندام، ہاتھ پاﺅں میں چستی، ہونٹ رسیلے، نین کٹیلے۔ زلف بریدہ، لڑکی نے پڑھنے لکھنے میں انگریزوں کے کان کاٹے تھے۔ کس طرح؟ اس طرح کہ جہاں سے پڑھیں، اسناد فضیلت کی سمیٹ لائیں مگر ایسے کہ پیچھے کوئی نام نہ نشان۔ کالج والے حیران پریشان کہ کوئی کب آیا، تاروں کی چھاﺅں میں اور سب علم سمیٹ کے لے گیا، چراغ سر راہ کو کچھ خبر ہی نہیں…. تم قتل کرو ہو یا کرامات کرو ہو…. کہا کہ کرامات تو اب دیکھو گے۔ ابھی تو قصہ شروع ہوا ہے۔ یہاں تک آئی ہوں تو تخت پر بیٹھوں گی، تاج پہنوں گی، جھروکہ درشن دوں گی، اور ہاں پیروں میں نازک پشاوری چپل، خاص قصہ خوانی بازار سے اور ایبٹ آباد جاﺅں گی، سب سکھیاں انگلیاں کاٹ لیں گی اور یہ کہ ووٹ چھاجوں بھر بھر کے لاﺅں گی بالے میاں کے دوار…. میرے تو گردھر گوپال….

اب چیخے میاں کا قصہ سنو۔ عمر بھر لکھنو میں رہے۔ لکھنو کی بھی تہمت ہی رہی۔ بڑے نواب کے پلنگ کے نیچے استراحت فرماتے تھے۔ نواب صاحب حرم سرا کو رونق بخشتے تو یہ اپنی مچان پہ لیٹے لیٹے ایسی آوازیں نکالتے کہ دالان میں چھپی کنیزوں میں سنسنی دوڑ جاتی۔ ریشمی پردوں کی اوٹ سے سسکیاں سنائی دیتیں۔ چیخے میاں دن چڑھے پلنگ کے نیچے سے برآمد ہوتے تو بڑی بوڑھیاں ان کا نورانی چہرہ دیکھ کر نظریں جھکا لیتیں۔ کچی عمر کی کنیزیں منہ میں ڈوپٹہ ٹھونس کر ہنسی روکتیں مگر سچ یہ ہے کہ چیخے میاں کو قدرت نے خضر صورت دی تھی اور آواز میں شیطان کی سرگوشی۔ دلوں کے حال اوپر والا جانتا ہے۔ طبی رپورٹ ان کی بھی وہی تھی جو بڑے نواب کی تھی۔ فرنگی کی توپوں میں کیڑے پڑیں،لکھنؤ اجڑ گیا۔ بڑے نواب مٹیا برج سدھار گئے۔ چیخے میاں کو روٹیوں کے لالے پڑ گئے۔ گرتے پڑتے اٹک کے پاس پہنچے۔ وہیں دریا کے کنارے اتھلے پانی کی جھاڑیوں میں اٹک گئے۔ مدد کے لیے پکارتے تھے۔ قدر شناس نے آواز سن لی۔ ہنر پہچان لیا۔ اخبار میں لے آیا۔ اللہ مسبب الاسباب ہے۔ جسے چاہے پلنگ کے نیچے رزق دے اور جسے چاہے اخبار کے صفحے پہ رونق دے۔ آواز بہر صورت شیطانی اور چہرہ نورانی چاہیے۔

بالے میاں کی چھڑ اور مشتری خانم میں جھڑپ کی خبر پھیلی۔ چیخے میاں مدتوں سے ڈیوڑھی میں پڑے لقمہ تر کو ترستے تھے۔ دیسی مرغ کی شکل دیکھے مہینے گزر چکے تھے۔ مغلانی بوا نے خواب گاہ کی کھسر پھسر پہنچائی۔ بوڑھی ہڈیوں میں جوش آگیا۔ دربار حرام پور کا نسخہ دیکھ رہے تھے، یک بیک سرہانے پر اوندھا کر کے رکھا اور کڑک کر بولے۔ ’ہم نے بڑے نواب کی عزت رکھی۔ پوٹھوہار کا نمک کھایا ہے۔ خدا نے چاہا تو بالے میاں کی چھڑ پر پت جھڑ نہیں آنے دوں گا۔ ایک تان ایسی اڑاﺅں گا کہ ملہار کا سماں باندھ دوں گا۔ ڈھولک بجے گی۔ مردان کے گڑ کی چائے پیوں گا۔ موتی چور کے لڈو کھاﺅں گا اور بڑی بی تمہارے پوپلے منہ میں برفی کا ٹکڑا تو اپنے ہاتھ سے رکھوں گا۔ اٹھے، کان پہ ہاتھ رکھا اور تان اڑائی۔ دنیا کے رنگ نیارے ہیں۔ چیخے میاں کی آواز بیٹھ گئی۔ سننے والے کان کہتے ہیں کہ سسکیاں تو سنائی دیں مگر ان میں سیج کا رس نہیں تھا۔ ایک نثری نظم کا ٹکڑا، ساقی فاروقی نامی ایک بدنام شاعر کا لکھا، کاتک کے پیلے چاند تلے سرسراتی ہوا کے دوش پر ایسے لٹکتا رہ گیا جیسے چھپر کھٹ کے پائے پر بڑے نواب کا چھینٹ کا کرتا….

ایک جنم تک

اندھی گونگی بہری بن کے

اپنے ہی گھر میں بے دخل،

بے قدری کے ’سخی حسن‘ میں دفن رہیں

آج نئے آفاق مانگتی ہیں

دادی اماں طلاق مانگتی ہیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).