بلوچستان میں مودی کے لئے کچھ بھی نہیں


\"wisiکل بلوچستان بھر میں مودی کے بیانات کی مذمت کے لئے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔ آج اخبارات میں ایک چھوٹی سی خبر چھپی ہے کہ بنگلہ دیش کے وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ انکا ملک بلوچستان کے بارے میں مودی کے خیالات کا حامی ہے۔ بنگالی وزیر کی ہمت کو خوب داد دیتا ہوں کہ وہ عالمی بزتی کرانے کے لئے مودی کے ساتھ کھڑے ہو گئے ہیں۔

مودی صاحب کا جو دل کرتا ہے شوق سے کہتے رہیں اور بے وقعت ہوتے رہیں۔ پاکستان کو بلوچستان کے حوالے سے تو کیا کسی بھی حوالے سے کوئی بیرونی خطرہ خدشہ نہیں ہے۔ کسی عالمی طاقت میں بھی یہ جرات ہمت نہیں کے وہ پاکستان کو فوجی میدان میں چیلنج کر سکے اور ہم پر جنگ مسلط کرے۔

شدت پسندوں کو غیر ضروری طور پر مذکور کرنے کا ارادہ نہیں صرف ریکارڈ کی درستی کے لئے عرض ہے۔ ایک معتبر و محترم گواہ کا بتانا ہے کہ حکیم اللہ محسود نے دل پر ہاتھ رکھ کے اس سے کہا کہ ہماری جنگ ریاست سے ہے وطن ہمارا اپنا ہے۔ آج پاکستان پر کوئی جنگ مسلط ہو ہم سب کچھ بھول کر سب سے آگے جا کر لڑیں گے۔

\"akhtar

بھارتی وزیر اعظم اور ان کے ریاستی ادارے یہ سب سمجھتے ہیں۔ کشمیر کے لئے تربیت یافتہ عسکریت پسندوں کی اصل تعداد سے بھی اچھی طرح واقف ہیں۔ وہ اپنی ٹھرک پوری کرنے کو بیان دے رہے ہیں۔ بلوچستان میں مداخلت کرتے پکڑے جانے پر اپنی خفت مٹا رہے ہیں۔ وہ شوق سے کہتے رہیں جو انہیں کہنا ہے۔ پاکستان میں لوگوں کو سمجھ آ رہی ہے۔

یہ سب کہنے کے بعد یہ بتانا بھی بہت ضروری ہے کہ پاکستان کو جو خطرہ ہے وہ اندرونی ہے۔

بلوچستان میں بہت سارے مسائل ہیں بے، چینی ہے، بیروزگاری ہے۔ وہاں ترقیاتی کاموں کے شور سے بھی ایک الٹا تاثر بن رہا ہے کہ بلوچ اقلیت بن جائیں گے۔ ہمیں بلوچستان کے لوگوں کو مطمئن کرنا ہے۔ انہیں ہر وہ اختیار اور حق دینا ہے جس سے وہ مطمئن ہو سکیں۔ آج کے پاکستان میں کوئی آمریت نہیں ہے۔ صوبوں میں منتخب حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ لوگوں کو یہ سمجھانا ثابت کرنا ہوگا کہ ان کے نمائیندے با اختیار ہیں۔ اتنے ہی با اختیار جتنا کے پی یا پنجاب کی منتخب حکومتیں ہیں۔

جنرل کیانی نے فوج میں سندھ اور بلوچستان کا کوٹہ بڑھانے کے لئے ایک شاندار پالیسی اپنائی تھی۔ آج فوج میں سندھی اور بلوچ سپاہی اور افسروں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ان سپاہیوں نے اپنی پروفیشنل صلاحیتوں کی داد اپنے ساتھیوں سے وصول کی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں سندھ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے افسر اور جوان شہید ہوئے ہیں۔

\"jahanzeb-jamaldini\"

بلوچستان میں مسنگ پرسن کا مسلہ ہے اس کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔ فئیر ٹرائیل ہر ملزم کا حق ہے جو اسے ملنا چاہئے۔

بلوچستان کے پشتون اور بلوچ دکھوں غموں کا سامنا بہت حوصلے سے کرتے ہیں۔ بڑی سے بڑی مصیبت میں وہاں کے لوگ اپنا حوصلہ برقرار رکھتے ہیں۔ اس حوصلہ مندی کی داد تو دینی بنتی ہے لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ دکھ کی گھڑی میں وہ اپنے ساتھ کھڑے ہونے والوں تادیر یاد رکھتے ہیں۔ اختلافات کو بھلا دیتے ہیں۔

کبھی سردار عطا اللہ نے اپنے جوان بیٹے کی دوران حراست المناک موت کا غم سہا تھا۔ انہیں آج تک نہیں معلوم نہیں کہ ان کے بیٹے کو کہاں دفنایا گیا تھا۔ ان زخموں پر مرہم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اختر مینگل بی این پی کے سربراہ ہیں۔ وہ سابق وزیر اعلی رہے ہیں اور سردار عطا اللہ مینگل کے سیاسی وارث ہیں۔ پاکستان نے جب چاغی میں ایٹمی دھماکے کر کے اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کیا۔ یہ اختر مینگل تھے جو وزیر اعظم کی گاڑی ڈرائیو کر کے اس خوشی میں شریک ہوتے دکھائی دیے تھے۔

\"sangat-jamaldini-2\"

اختر مینگل کی پارٹی کے سابق صدر جہانزیب جمالدینی کا بیٹا سنگت جمالدینی کوئیٹہ دھماکے میں شہید ہوا ہے۔ فیس بک کے اپنے پیج پر جہانزیب جمالدینی اپنے بیٹے کو یاد کرتے ہیں۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملے لکھتے ہیں۔ دل درد سے بوجھل ہو جاتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اے خدا مجھے ہمت دے میں سب جانتا ہوں لیکن صبر نہیں آتا۔ میرے بیٹے میں تمھیں ہر وقت یاد کرتا ہوں۔ سنگت تم مجھے ہر وقت ہر جگہ دکھائی دیتے ہو یاد آتے ہو۔

ہمیں اپنے اس پر امن لیڈر کا دکھ بانٹنا ہے۔ اسے بتانا ہے کہ وہ اکیلا نہیں ہے۔ جہانزیب جمالدینی نے وطن پر اپنا بیٹا قربان کیا ہے۔ جو رواج کے مطابق اپنے دوست وکلا کے ساتھ غم کی گھڑی میں ساتھ دینے کھڑا ہوا تھا۔ بلوچستان میں جتنے سنگت ہیں ان کا خیال رکھیں انہیں منائیں انہیں خوشیاں دیں۔

بلوچستان میں مودی کے لئے کچھ نہیں ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments