بابل کا برج اور سرائیکی صوبہ


(ایک غیر سرائیکی کی نظر میں )

تورات میں ایک واقعہ مرقوم ہے کہ طوفان کے نوح کے چند نسلوں بعد کچھ لوگوں نے سلطنتِ بابل میں ایک برج بنانے کا قصد کیا۔ ان کا ارادہ یہ تھا کہ اس برج کو آسمان تک بلند کیا جائے۔ خدا تعالیٰ کو یہ باغیانہ کوشش پسند نہ آئی۔ سو خدا تعالیٰ نے انہیں اس کے باغیانہ کوشش سے باز رکھنے کے لیے ان کی زبانوں میں اختلاف ڈال دیا۔ یوں تھوڑے عرصے بعد زبانوں کے اختلاف کے باعث یہ لوگ ایک دوسرے سے لڑتے جھگڑتے اس جگہ سے منتشر ہو گئے۔ اس واقعہ کو تاریخ اور ادب کی کتابوں میں برج ِ بابل کے نام سے منسوب کر رکھا ہے۔

اس ایک واقعے سے انسانی تاریخ نے بہت سے سبق سیکھے۔ اور انسانی تاریخ نے اس واقعہ کو بار بار کئی طرح سے دہرایا۔ حکمرانوں نے اس واقعے سے سیکھ لیاکہ اگر لوگ آپ کی مرضی اور مفادات کے خلاف کوئی کام کرنے کی کوشش کریں تو ان کو آپس میں الجھا دو۔ ان کو لسانی، قومی اور مسلکی تنازعات میں ایسا الجھائیں کہ ان کی توجہ کسی مرکزی نکتہ پر مجتمع نہ ہو سکے۔ یوں یہ لوگ خود ہی اپنی طاقت ایک دوسرے کی طاقت کم کرنے میں خرچ کردیتے ہیں۔ اور وہ طاقت جو یکجا ہو کر انقلاب لا سکتی ہے ضائع ہوجاتی ہے۔ اس واقعہ سے یہ سبق بھی سیکھا گیا کہ منتشر الخیال اقوام پر حکومت کرنا، انھیں غلام بنانا اور پھر غلام بنائے رکھنا آسان ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں بدنام ِ زمانہ اصطلاح ”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ بھی اسی کا شاخسانہ ہے۔

حالیہ چند سالوں میں پنجاب کی تقسیم کا مسئلہ بابل کے برج کی سی صورتحال کا شکار ہو چکا ہے۔ پنجاب کی روز افزوں آبادی اس بات کی متقاضی ہے کہ جلد ازجلد ایک نیا خود مختار صوبہ بنایا جائے۔ اور جنوبی پنجاب کے لوگ اس کام کے لئے برسوں سے کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن یہ کوشش کامیاب ہوتی نظر نہیں آرہی۔ ہرپارٹی جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس صوبے کی تشکیل کے حق میں ہوتی ہے۔ لیکن جب حکومت میں آجاتی ہے تو ٹال مٹول سے کام چلا جاتی ہے۔

کبھی سب سیکریٹریٹ کا جھانسا، کبھی کوئی اور حربہ استعمال کرکے۔ اس مسئلہ کے حل کو دیر تک زیر التواء رکھنے کے لیے پھر وہی پرانی تکنیک استعمال کی جا رہی ہے۔ جو بابل کے برج کی تعمیر روکنے میں استعمال ہوئی۔ ایک طرف صوبے کا نام جنوبی پنجاب ہونا چاہیے کہ سرائیکستان کا تنازعہ کھڑا کر دیا گیا، دوسری طرف بہاولپور صوبہ بحالی تحریک شروع کرا دی، پھر سیکریٹریٹ ملتان میں بننا چاہیے کہ لودھراں میں؟ الغرض اس وقت اس مسئلہ کو پوری طرح الجھا دیا گیا۔

کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ صوبے کا نام سرائیکستان رکھنے سے لسانی تعصبات کو ہوا ملے گی۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ اگر ایسا ہے تو بلوچستان اور سندھ کے نام کیوں تبدیل نہیں کر دیتے؟ جب کسی کو سندھ یا بلوچستان پہ اعتراض نہیں ہے تو سرائیکستان سے کیا مسئلہ ہے؟ ۔ دوسری اہم بات ہم لوگ جو میاں چنوں، خانیوال اور وہاڑی یا دوسرے علاقوں سے ہیں۔ جن کی زبان سرائیکی نہیں ہے، انھوں نے تو اس نام کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلائی۔ جنھوں نے اس صوبے میں شامل ہونا ہے انہیں اس نام پہ اعتراض نہیں ہے۔ تو پھر وہ لوگ جو اس صوبے میں آئیں گے ہی نہیں ان کا اعتراض کیا معنی رکھتا ہے ؟

اگر تعصب کی بات کی جائے تو صوبے کا نام ”سرائیکستان“ اگر لسانی تعصب کی طرف اشارہ کرتا ہے تو کیا ”جنوبی پنجاب“ سمتی تعصب کا استعارہ نہیں ہے؟ کیا یہاں پہ رہنے والوں کی پہچان یہ ہے کہ وہ لاہور کے جنوب میں رہتے ہیں؟ کیا ایک انسان کی پہچان آپ کے دائیں یا بائیں کھڑا ہونا ہے؟ میرے جنوبی سمت کھڑا انسان ”جنوبی انسان“ ہے؟ میں اس کے لیے شمالی انسان نہیں ہوں؟ میرے خیال میں سرائیکستان سے زیادہ متعصب نام جنوبی پنجاب ہے جو ایک احساس کمتری یا فکری پسماندگی کا مظہر ہے۔ اس لیے اگر صوبے کا نام اگر سرائیکستان رکھا جائے تو اس کی اکثریتی آبادی کو جو اپنائیت محسوس ہوگی وہ ان کے ان زخموں پہ مرہم کا کام کرے گی جو برسوں سے انھیں وسائل سے دور رکھ کر لگائے جا رہے ہیں۔

عام آدمی کا مسئلہ نام نہیں ہے۔ وسائل کی غیر مساوی تقسیم ہے۔ عام آدمی کو لاہور جانے کے لیے پانچ گھنٹے سفر کرنا پڑتا ہے اور تین ہزار روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں۔ عام آدمی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا دیا ہو ٹیکس اور ریونیو اس کی فلاح پہ استعمال ہو لاہور میں نہیں۔ کئی عشروں سے کروڑوں انسان بس ایک نشتر نامی ہسپتال میں علاج کروانے پہ مجبور ہیں دوسرا ہسپتال تک میسر نہیں ان کو۔ لہذا عوام کے مسئلہ کو حل کیا جائے اسے نام میں الجھا کر دبایا نہ جائے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).