محکمہ تعلیم اور ما نیٹرنگ


تعلیم کسی بھی شعبہ کی ترقی اور اقوام کی کردار سازی میں چراغ راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیم کے بغیر زندگی کے اہداف کا نا صرف حصول بلکہ تعین کرنا بھی نا ممکن ہے۔ محکمہ تعلیم میں اسکولز کی مانیٹرنگ کرنے کا ایک طویل سلسلہ ہے۔

چیف ایگزیکٹو افسر، ڈسٹرکٹ ایجوکشن افسر ز (میل اور فی میل) ، تحصیل کی سطح پر ڈپٹی ڈسٹرکٹ افسر ز (میل اور فی میل) اور اسسٹنٹ ایجوکیشن افسر ز (میل اور فی میل) وغیرہ۔ پرائمری اور ایلیمنڑی اسکولز کو براہ راست اسسٹنٹ ایجوکیشن افسر ز ہر ماہ دو بار وزٹ کرتے ہیں۔ اپنے وزٹ کے دوران انہیں اسکولز کی صفائی، ادرارہ کا نظم و نسق، کوالٹی ایجوکیشن اور دیگر معاملات جو ادارہ سے متعلقہ ہو ں تو ان کی نگرانی کرنا ہوتی ہے۔ مندرجہ بالا تمام امور میں سے ان کے فرائض منصبی کا سب سے اہم اور لازمی جزو کوالٹی ایجوکیشن ہے۔ اس میں طلبا ٕ کی استعداد، دوران لیسن استعمال ہونے والے ویول ایڈز (ورک شیٹس، چارٹس اور فلش کارڈز وغیرہ ) ، اور لیسن کے ا ختتام پر طلبا ٕ اور اسا تذہ کا فیڈ بیک وغیرہ۔

مگر بدقسمتی سے اسسٹنٹ ایجوکیشن افسر ز اس کے علاوہ باقی تمام کاموں کو اپنی تر جیحات میں شامل رکھتے ہیں۔ بلکہ اس اہم کام کو دفتر میں بیٹھ کر خفیہ طریقے سے سر انجام دینے کو دانائی سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسکولز ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے جاری کردہ حالیہ رپورٹ کے مطابق تمام اسسٹنٹ ایجوکیشن افسر ز کی طرف سے جمع کروائی گئی کلاس رومز کی مشاہداتی رپورٹ یکساں تھی۔ جو حقائق کے مسخ ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حقیقت میں اسسٹنٹ ایجوکیشن افسر ز کو کم از کم دو کلاس رومز میں ماڈل لیسن کا مظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ تا کہ وہ اساتذہ کو جدید طریقہ ہا ئے تدریس سے روشناس کروا سکیں۔ مگر بد قسمتی سے اس عمل کا ما نیٹر نگ میں دور دور تک بھی وجود نہیں پایا جاتا۔

دوسری طرف اگر ڈپٹی ڈسٹرکٹ افسر ز صاحبان اسکولز کا دورہ کریں تو وہ کلاس میں موجود طلبا ٕ سے سلام و دعا کرنے کونا صر ف اپنی تذلیل تصور کرتے ہیں بلکہ طلبا ٕ کے سامنے استاد کی تذلیل کو تر جیح دیتے ہیں۔ خدا جانے ان کے پاس کو نسا ایسا سلیمانی علم ہے۔ جس کی بنیاد پر وہ 6 سے 7 سال تک کے طلبا ٕ کی قابلیت اور استاد کی مہارت کو محض ایک یا دو سوالات سے پر کھ لیتے ہیں۔ سنا ہے بقیہ فرشتہ صفت حضرات دفاتر میں براجمان ہو کر ہی اسکولز کی کاکردگی کا تعین کر لیتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).