حافی لاکھوں دلوں میں گھر کر گیا


عصر حاضر میں اردو زبان اور اردو ادب کی طرف سے لوگوں کا شوق آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے۔ ویسے تو قیام پاکستان کے بعد اردو زبان کو ہی قومی زبان کا درجہ دیا گیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی مقبولیت اس حد تک نہ رہی جس حد تک ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان میں اردو زبان کی ترقی اور دوام کے حوالے سے بہت سارے لوگوں نے کام کیے ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے دیس کے نوجوان ان کی باتوں پر اور ان لوگوں کی کاموں پر عمل نہ کر سکے۔

پاکستان کے نوجوان آج کل اردو لکھنا تو دور کی بات بولنا بھی پسند نہیں کرتے اگرکوئی نوجوان اردو لکھنے کی جسارت بھی کرتا ہے تو وہ رومن اردو لکھ دیتا ہے۔ اردو ادب اور شاعری کے حوالے سے ہمارے نوجوان تو صرف اردو کے چند نامی گرامی شعرا کو ہی جانتے ہیں۔ ان کی زبان تین چار شعرا میر تقی میر، ٍغالب، اور ناصر کاظمی کا نام لینے کے بعد رک جاتی ہے۔ لیکن کچھ دنوں پہلے میری نظر سے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو گزری جس میں ایک نوجوان شاعر کمال انداز میں شاعری پیش کر رہا تھا۔

اس نوجوان کے بارے ذرا جاننے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اس نوجوان کا اصل نام تہذیب الحسن قلمی نام تہذیب حافی ہے۔ نئے انداز سے بھرپور، جدید اور خوبصورت لب و لہجے کے نوجوان شاعر تہذیب حافی 5 دسمبر 1989 کو تونسہ شریف (ضلع ڈیرہ غازیخان) میں پیدا ہوئے۔ والد محترم کے حیدر آباد میں ملازمت کی وجہ سے زندگی کے ابتدائی سال حیدرآباد میں گزارے۔ مہران یونیورسٹی سے سافٹ وئیر انجینرنگ کرنے کے بعد بہاولپور یونیورسٹی سے ایم اے اردو کیا۔ آج کل لاہور میں مقیم ہیں۔ سوشل میڈیا پر تہذیب حافی کی غزلیں اتنی شائع ہو گئیں کہ جس شخص کا اردو ادب اور اردو شاعری سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا وہ شخص بھی حافی کی غزلیں فیسبک، وٹس ایپ اور مختلف جگہوں پر پوسٹ کر رہا تھا۔ تہذیب حافی کی ایک مشہور زمانہ غزل قارئین کی خدمت میں پیش کروں گا۔

تیرا چپ رہنا مرے ذہن میں کیا بیٹھ گیا

اتنی آوازیں تجھے دیں کہ گلا بیٹھ گیا

یوں نہیں ہے کہ فقط میں ہی اسے چاہتا ہوں

جو بھی اس پیڑ کی چھاؤں میں گیا بیٹھ گیا

اتنا میٹھا تھا وہ غصے بھرا لہجہ مت پوچھ

اس نے جس کو بھی جانے کا کہا بیٹھ گیا

اپنا لڑنا بھی محبت ہے تمہیں علم نہیں

چیختی تم رہی اور میرا گلا بیٹھ گیا

اس کی مرضی وہ جسے پاس بٹھا لے اپنے

اس پہ کیا لڑنا فلاں میری جگہ بیٹھ گیا

بزم جاناں میں نشستیں نہیں ہوتیں مخصوص

جو بھی اک بار جہاں بیٹھ گیا بیٹھ گیا

تہذیب حافی کی شاعری میں ایک جدت دکھائی دیتا ہے۔ نوجوان نسل حافی کو اس لئے بہت زیادہ پسند کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں حالیہ دور میں ان کے دل کی بات کو شاعرانہ انداز پیش کرنے والا واحد شاعر تہذیب حافی ہی ہیں۔ حافی کی شاعری میں دل کے دکھ، ذہنی افسردگی کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاکھوں لوگوں کی جانب سے تہذیب حافی کی شاعری سننے اور پڑھنے کے بعد اردو ادب کے بڑے بڑے ادیبوں کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ وہ تہذیب حافی کو پاکستان اور سرحد پار ہونے والے مختلف مشاعروں میں شرکت کی دعوت دیں۔ تہذیب حافی گزشتہ دو، تین ماہ سے مسلسل پاکستان کے مختلف یونیورسٹیوں میں اردو ادب کے مشاعروں میں بڑے بڑے شعرا کے ساتھ شرکت کر رہے ہیں۔ اور وہ اپنا کلام پیش کر رہے ہیں

یہ کون راہ میں بیٹھے ہیں مسکراتے ہیں

مسافروں کو غلط راستہ بتاتے ہیں

ترے لگائے ہوئے زخم کیوں نہیں بھرتے

مرے لگائے ہوئے پیڑ سوکھ جاتے ہیں

انہیں گلہ تھا کہ میں نے اِنہیں نہیں چاہا

یہ اب جو میری توجہ سے خوف کھاتے ہیں

کوئی تمھارا سفر پر گیا تو پوچھیں گے

کہ ریل گزرے تو ہم ہاتھ کیوں ہلاتے ہیں

حافی کی غزلیں پڑھنے کے بعد میرا بھی کافی عرصے سے ملاقات کرنے کا دل کر رہا تھا۔ لیکن اپنی ذاتی مصروفیت کی وجہ سے میرا لاہور جانا مشکل تھا اور تہذیب حافی صاحب کے اسلام آباد آنے کا کوئی پروگرام نہیں بن رہا تھا۔ لیکن کچھ دنوں کے انتظار کے بعد میں نے تہذیب حافی کی فیسبک وال پر دیکھا کہ وہ اسلام آباد میں اسلامک انٹرنیشنل یونیورسٹی میں اسلامی جمیعت طلبہ کے زیراہتمام ہونے والے اردو مشاعرے میں شرکت کے لئے آرہے ہیں۔

حافی کو قریب سے سننے اور دیکھنے کا کافی دنوں سے انتظار تھا۔ مشاعرے کا وقت رات کے نو بجے دیا ہوا تھا لیکن میں مارگلہ پہاڑیوں کے دامن میں واقع اسلامک یونیورسٹی کے کویت ہاسٹل میں رات کے آٹھ بجے پہنچ گیا۔ وہاں پہنچتے ہی محسوس ہوا کہ لوگ بڑی جوش و خروش سے آج کے ہونے والے مشاعرے میں شرکت کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ ڈائس پر موجود سٹیج سیکریٹری بار بار تہذیب حافی صاحب کا یہ شعر کہ کر مجمعے سے درخواستیں کر رہا تھا کہ وقت کی کمی ہونے کی وجہ سے اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں۔

مشاعرے شروع ہونے سے چند لمحوں پہلے ہی پاکستان کے معروف نوجوان شاعر تہذیب حافی سیاہ رنگ کا شلوار قمیض پہنے آستینیں چڑھائے ہوئے مشاعرے کے سٹیج پر پہنچ گئے۔ تہذیب حافی کو دیکھتے ہوئے لوگوں نے ایسے جذبے اور جوش وخروش سے نعرے لگائے کہ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج لوگ صرف تہذیب حافی کو ہی سننے کے لئے آئے ہوئے ہیں۔ ہر طرف ویلکم ویلکم حافی ویلکم کے نعرے گونج رہے تھے۔ پاکستان کے مختلف شہروں سے آئے شعرائے کرام نے نوجوانوں کی توجہ حاصل کرنے کی بھر پور کوشش کی لیکن ہر جانے والے شعرا کے بعد مجمعے کی جانب سے تہذیب حافی کو بلانے کا ایک ہی مطالبہ سامنے آرہا تھا۔

کچھ گھنٹوں کے انتظار کے بعد مجمعے کا یہ مطالبہ پورا کر دیا گیا۔ تہذیب حافی نے مائیک سنھبالتے ہی ایسے اشعار اور غزلیں کہیں کہ سننے والے داد دیے بغیر نہ رہ سکے۔ تہذیب حافی آستین چڑھائے ہوئے ایک ہاتھ میں سگریٹ لئے ایسی غزلیں ارشاد فرما رہے تھے کہ دیکھنے والے اور سننے والے سنتے ہی رہ گئے۔ مشاعرے میں کہے گئے چند اشعار اور غزلیں آپ قارئین کی نظر کرنے کی کوشش کروں گا۔

اس کی تصویریں ہیں، دلکش تو ہوں گی۔

جیسی دیواریں ہیں، ویسا سایا ہے۔

اک میں ہوں، جو تیرے قتل کی کوشش میں ہوں۔

اک تو ہے، جو جیل میں کھانا لایا ہے۔ ‏‎

وہ جس کی چھاؤں میں پچیس سال گزرے ہیں

وہ پیڑ مجھ سے کوئی بات کیوں نہیں کرتا

فریب دے کر تیرا جسم جیت لوں لیکن

میں پیڑ کاٹ کے کشتی نہیں بناؤں گا

تہذیب حافی اپنی شاعری میں کبھی محبوب کی خاموشی، جدائی اور کبھی وصال کی باتیں کرتے ہیں۔ ان کی زیادہ تر شاعری دکھوں کا مجموعہ ہے۔ حالیہ کچھ دنوں سے تہذیب حافی جس انداز سے شہرت کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں تو یہ تمام چیزوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مجھے یہ چیز لکھنے میں کوئی باک نہیں کہ ایک دن تہذیب حافی کا شمار پاکستان کے نامور شعرائے کرام میں کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).