میں چاہتا تھا کہ مجھے دفن کرنے کی بجائے جلا دیا جائے


بُرا وقت گزرگیا، اُلٹیاں بند ہوگئیں، تھوڑے تھوڑے بال نکل آئے، اندر سے میں اپنے آپ کو توانا محسوس کرنے لگا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ میں اندرونی طورپر اپنے دونوں بچوں کی شادی کے لیے تیار ہورہا تھا۔ ان کی شادیاں بھی ہوگئیں۔ میں نے دوبارہ سے اپنے کام پر جانا شروع کردیا۔ بیماری کے شروع ہونے کے ایک سال کے بعد ہونے والے تفصیلی معائنے کے بعد ڈاکٹروں نے مجھے مکمل طورپر صحت مند قرار دے دیا تھا۔

زندگی ویسی ہی حسین تھی اور دنیا اتنی ہی خوبصورت، جس سے میں نے ہمیشہ محبت کی تھی۔ کینسر کو میں ایک حادثہ سمجھتا تھا۔ اس وسیع و عریض کائنات میں جس کی وسعتوں کا اندازہ بھی کرنا مشکل تھا، اس کائنات کے کروڑوں اربوں گلیکسی میں سے ایک گلیکسی میں جہاں کروڑوں ستارے، سیارے اور دنیائیں موجود تھیں اس گلیکسی کے ایک چھوٹے سے شمسی نظام کے ایک چھوٹی سی زمین پر میرے جیسے انسان کی زندگی کا کیا مقصد ہوسکتا ہے۔ ایک ایسا انسان جسے اپنا اور اپنے ساتھ کے عوامل کا بھی ادراک نہیں ہے جو ایک کتے کے کاٹنے سے مرسکتا ہے، کسی بارش کا شکار ہوکر بہہ سکتا ہے، معمولی ملیریا کا مچھر اس کی جان لے سکتا ہے، ایک پہاڑی سے گرنے والا پتھر ایک سانپ کا ڈنک ایک سڑک کا حادثہ سب کچھ ختم کرسکتے ہیں، زندگی کتنی بے معنی ہے۔ ساری زندگی میں اسی بے معنی زندگی کے بارے میں سوچتا رہا، اپنے بچوں سے اس کے بارے میں بحث و مباحثہ کرتا رہا۔ اعتقاد سے بالاتر ہوکر میری کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ اس بے معنی زندگی کے بارے میں سوچیں اور کائنات کے گورکھ دھندے کو سمجھنے کی کوشش کریں۔

اس بے معنی اور بے مقصد زندگی کے باوجود مجھے یہ زندگی اچھی لگتی تھی اور میں نے اس زندگی کو دلچسپی کے ساتھ گزارا تھا۔ زندگی سے مجھے کوئی شکایت نہیں تھی۔ ایسی کئی اور زندگیاں مجھے مل جاتیں تو کتنا اچھا ہوتا۔ اس خوبصورت اور حسین دنیا کو دیکھنے سمجھنے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا اور بھی موقع مل جاتا تو خوب ہوتا۔ یہی کچھ سوچتے ہوئے زندگی گزرگئی تھی اور جانے کا وقت آگیا تھا۔ جسے ڈاکٹروں نے فی الحال روک دیا تھا۔

میں دو سال کے اندر ہی دادا اور نانا بن گیا، زندگی مجھے اس سے زیادہ حسین تحفہ نہیں دے سکتی تھی۔ جب وہ بچے گھر آتے تو میرا دل کرتا کہ سارے کام چھوڑ کر ان دو ننھی جانوں کو اپنی بانہوں میں لے کر گھومتا رہوں۔ جیسے جیسے وہ بڑے ہوتے جارہے تھے۔ ویسے ویسے ان کا حسن نکھرتا جارہا تھا۔ زندگی کس طرح سے اپنے آپ کو آگے چلاتی رہتی ہے اور کس طرح سے ختم ہوجاتی ہے۔ ستارے ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ سیارے غائب ہوجاتے ہیں، پوری کائنات میں نہ جانے کب سے یہی عمل ہورہا ہے۔ نہ جانے کتنی دفعہ کتنی زمینیں بنی ہوں گی کتنی زندگیاں وجود میں آئی ہوں گی اور اربوں سالوں تک قائم ودائم رہنے کے بعد کائنات میں بکھر گئی ہوں گی۔ یہ ایک ایسا عمل ہے جو مسلسل جاری ہے مقام اور وقت کے قیدوبند کے بغیر۔

چوتھے سال کے میڈیکل چیک اپ سے پہلے میں اتنا تندرست تھا کہ میرے دل میں خیال آیا کہ اب ڈاکٹر کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ میں بالکل ہی ٹھیک ہوں بلکہ شاید ان چند دوستوں سے زیادہ اچھی حالت میں ہوں جنہیں کینسر نہیں ہوا تھا مگر وہ دوسرے جسمانی مسائل کا شکار ہیں۔ مجھے تو کچھ بھی نہیں تھا نہ کھانسی نہ بخار نہ جسمانی تھکن اور نہ ہی کوئی اور تکلیف مگر میڈیکل چیک اپ بری خبر لایا تھا۔

میرے بائیں پھیپھڑے کے نچلے حصے میں ایک پچیس سینٹ کے سکّے سے تھوڑی بڑی رسولی نظر آئی تھی۔ اس دفعہ اس کینسر نے بڑی خاموشی سے حملہ کیا تھا۔ نہ کوئی کھانسی، نہ سانس میں تکلیف نہ بلغم میں خون۔ مجھے بھی اس دفعہ وہ پریشانی نہیں ہوئی تھی جو پہلے کینسر کی تشخیص کے بعد ہوئی تھی۔ میں نے ایک طرح سے اس ہونی کو قبول کرلیا تھا۔ لوگ ٹھیک کہتے ہیں کینسر جڑ سے نہیں نکالا جاسکتا۔

میں غلط ثابت ہوا۔ پچھلا کینسر جڑ سے ہی نکال دیا گیا تھا۔ پھر سے ہونے والے تمام ٹیسٹ پیٹ اسکین اور برونکواسکوپی کے ذریعے بائیوپسی کے بعد پتہ لگا تھا کہ یہ بہت ہی خطرناک اور تیزی سے پھیلنے والا اوٹ سیل کارسی نوما ہے جسے اردو میں چھوٹے خلیوں کا کینسر کہا جاسکتا ہے۔

میرے صحت کے انشورنس کا کمال تھا کہ ملک کے ماہرترین ڈاکٹروں تک میری رسائی تھی، سب کا متفقہ فیصلہ تھا کہ اس دفعہ علاج صرف کیموتھراپی اور ریڈیشن سے کیا جائے۔ ان کا خیال تھا کہ مرض شاید پھیپھڑوں سے آگے نکل گیا ہے اگر علاج نہیں کیا جائے گا تو شاید بارہ مہینوں کی زندگی ہے اور علاج کے ساتھ شاید تین سال زندگی کھنچ جائے۔ مجھے میرے مستقبل کا اندازہ ہوگیا تھا۔ اچھی بات یہ تھی کہ مجھے پتہ تھا کہ مجھے کب جانا ہے، دونوں صورتوں میں میرے پاس وقت تھا کہ میں اپنی زندگی اور اس کے خاتمے کے بارے میں منصوبہ بندی کرلوں۔

کئی سالوں پہلے ڈرائیونگ لائسنس کی تجدید کے دوران میں نے اپنے جسم کے سارے اعضا کو عطیہ کرنے کے کاغذات پر دستخط کردیے تھے۔ امریکی قانون کے مطابق اس دستخط کے بعد کسی بھی حادثے کی صورت میں ڈاکٹروں کو اختیار تھا کہ وہ میرے مرنے کے بعد میرے اعضا کو استعمال کرلیں۔ پچھلی دفعہ کینسر کے علاج کے دوران مجھے پتہ لگا تھا کہ کینسر زدہ جسم کے اعضا کو عطیہ کے طور پر استعمال نہیں کیا جاتا ہے، صرف آنکھوں کے کورنیا کا عطیہ کام میں آتا ہے۔

میں نے پچھلے سال ہی اپنی وصیت لکھ دی تھی جس کے مطابق موت کے بعد میری خواہش تھی کہ مجھے جلادیا جائے۔ امریکا میں زیادہ تر لوگ پسند کرتے ہیں کہ انہیں جلا کر ان کی راکھ ورثا کے حوالے کردی جائے اورمرنے والے کی نصیحت کے مطابق راکھ کو دفن کردیا جاتا ہے یا دریا سمندر میں بہادیا جاتا ہے۔

امریکا میں تدفین پر بہت پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ تدفین کرنے کی بہت ساری کمپنیاں ہیں جو مرنے والے اور مرنے والے کے خاندان کی خواہشوں کے مطابق تدفین کرتی ہیں۔ سادہ سے سادہ تدفین کرنے میں تقریباً آٹھ دس ہزار ڈالر کا خرچ آجاتا ہے اور مہنگی تدفینوں کی تو کوئی انتہا نہیں ہے۔ امریکا میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ مسلمانوں کی تدفین کے لیے بھی ادارے بن گئے ہیں۔ عام طور پر کسی مسلمان کی تدفین پر کم از کم پانچ ہزار ڈالر خرچ ہوجاتے ہیں۔ بعض دفعہ غریب مسلمان کے لیے کچھ مخیرحضرات امداد فراہم کرتے ہیں تاکہ خاندان مناسب طریقے سے تدفین کرسکیں۔

میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں ایک حد تک تو علاج کراؤں گا مگر جہاں یہ محسوس ہوگا کہ کیموتھراپی اور ریڈیشن کے اثرات میرے برداشت سے باہر ہیں تو میں خاموشی سے زندگی سے رخصت لے لوں گا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ جسم کے مختلف حصو ں میں ہونے والے دردوں سے بے چین رہوں، مجھے بار بار درد سے نجات کی دوائیں دی جائیں اور میں بے ہوش ہوتا رہوں اور میری بیوی بچے میرے کمرے کے آس پاس بے چین بھٹکتے رہیں۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ ان کے سامنے اُلٹیوں کے دورے پڑنے پر اُلٹیوں کو روکنے کی کوشش میں اپنے آپ کو ہلکان کروں۔

میں اکیلے کمرے میں درد کو برداشت کرنے کو تیار تھا۔ اُلٹیوں کو سہہ بھی لیتا اور بے ہوش پڑے پڑے مرجاتا مگر یہ مجھے بالکل پسند نہیں تھا کہ میری بیوی اور میرے بچے میری پریشانیوں، تکالیف کو دیکھ دیکھ کر پریشان ہوں۔ میں ہنستا ہوا ان کے سامنے سے غائب ہوجانا چاہتا تھا۔ میں نے انہیں بٹھا کر اپنی وصیت سے بھی آگاہ کردیا تھا اور یہ بھی بتادیا تھا کہ وقت آنے پر میں پروقار طریقے سے مرجانا پسند کروں گا جس کے لیے میں نے ضروری کاغذات پر دستخط کردیے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4