سوال یہ ہے


قصہ یہ ہے کہ یہاں ہر روز کوئی نا کوئی نیا شُغل جاری ہوجاتا ہے، چند روز ہوئے فیس بک پر لوگوں کے ہاتھ نیا کھیل آیا اور وہ تھا Ask me کی ایپ کہ جس میں لوگ خوشی خوشی یہ کہتے ہیں کہ ”پوچھیے ہم سے جو سوال بھی پوچھنا ہے“ یاد رہے کہ ایسے میں سوال پوچھنے والے کا نام مخفی رہتا ہے۔

بھئی اپنی قوم کا یہ قومی شُعار ہے کہ ہم مغرب سے درآمد شدہ وہ سہولت ضرور خوشی خوشی اپناتے ہیں کہ جس میں وقت کے ضائع ہونے کی سہولت دستیاب ہو سو اِس ایپ کو بھی توقع کے عین مطابق خاص و عام میں بھرپور پذیرائی نصیب ہوئی، لوگوں نے پردے کے پیچھے ایسے ایسے سوال داغے کہ کچھ نہ پوچھیے۔

ہم بھی سب دیکھا کیے لیکن چُپ نہ رہ سکے اور یہ مضمون لکھنے بیٹھ گئے۔

چند ایک دلچسپ سوالات جو نظروں سے گزرے، اُن کے بارے بات کرنا ضروری تھا۔

ایک زمانہ تھا کہ لوگ بہت پرسنل بات پوچھتے ہوئے گھبراتے تھے، معلوم نہیں مخاطب کیا سمجھے سو طرح کے الفاظ ڈھونڈتے تھے لیکن اب یہ چنداں مشکل نہیں، لوگوں نے شادی بیاہ، پسند ناپسند، سے لے کر بچوں کی تربیت، حتٰی کہ تنخواہ کے بارے بھی سوالات بلاتکلف پوچھے اور جواب بھی پائے۔

یہاں دور پار کے ایک گاؤں کے سخت سے اُستاد صاحب کا قصہ بھی سناتا چلوں کہ جب وہ امتحانات میں مشکل سوالنامہ ترتیب دینے لگتے تو طلباء کو یہ کہہ کر ہفتوں پہلے ذہنی کوفت میں ڈال دیتے کہ اِس بار پرچہ ”باہر“ سے بن کر آرہا ہے سو خوب تیاری کرو۔ طلبا اپنے ننھے منے ذہنوں پر خوب زور ڈالتے لیکن سمجھ نہ پاتے کہ یہ ”باہر“ کیا گاؤں سے باہر ہے، شہر سے باہر ہے یا ملک سے باہر ہے، آخر اِس بار پرچہ بنائے گا کون۔ لیکن جواب ندارد

اور جب امتحان کا روز آتا تو استاد صاحب دھوپ میں اپنی کرسی لگواتے اور طلباءکے پریشان چہرے دیکھ دیکھ کر مسکراتے رہتے۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد کہتے، میں نے تو پہلے ہی کہا تھا، پرچہ باہر سے بن کر آئے گا، اِس میں میرا کوئی قصور نہیں۔ وہ زمانہ پرانا تھا، استاد صاحب ”باہر“ کا پردہ لگا کر اتنے مشکل سوال پوچھتے تھے، اب جدید دور ہے اور ہمارے پاس Ask me کی ایپ دستیاب ہے جس پر کسی بھی وقت کسی بھی طرح کا سوال داغا جاسکتا ہے۔

ایک شاعر صاحب سے کسی نے آئن سٹائن کی ”تھیوری آف ریلیٹیوٹی“ پر روشنی ڈالنے کی گزارش کر رکھی تھی، جواباً شاعر صاحب نے کہا کہ وہ روشنی ڈالنے سے قاصر ہیں ہاں البتہ وہ اِس پر مٹی ڈال سکتے ہیں۔

چند ایک احباب نے بچوں کی تربیت کے حوالے سے سوالات کیے تھے کہ بچوں کی تربیت میں کون کون سی باتوں کو بطورِ خاص مدنظر رکھنا چاہیے، عین ممکن ہے کہ یہ سوال کسی بچے ہی نے اپنے والدین کے behalf پر پوچھا ہو تاکہ وہ یہ دیکھ سکے کہ اُس کی پرورش اُن خطوط پر ہو بھی رہی ہے کہ نہیں؟ اگر نہیں ہورہی تو اُن خطوط کو والدین کے سامنے رکھا جائے۔

بھئی نیا دور ہے نئی نئی باتیں ہیں، ایک صاحب پوچھتے ہیں کہ آپ کی تنخواہ کتنی ہے اور ہر ماہ آپ کتنی بچت اور کتنا خرچ کرتے ہیں۔ غالب گمان ہے کہ ایسا سوال پوچھنے والے آپ کے سسرال کے لوگ ہوں اور وہ پردے میں رہ کر معلومات لینا چاہتے ہوں۔

لوگ یہ بھی پوچھتے نظر آئے کہ آپ نے عشق کتنے کیے، پہلا عشق کس عمر میں کیا؟ پہلا عشق اب بھی یاد ہے؟

اندازہ لگائیے لوگ کس قدر پرسنل ہوجاتے ہیں، عرض کرتا چلوں کہ ایسے سوالات کا ہرگز جواب نہ دیں، ہوسکتا ہے آپ کی بیگم بغیر نام کے یہ سوال پوچھ رہی ہوں۔ اِدھر آپ جواب دیں، اُدھر جب گھر پہنچیں تو بیگم صاحبہ روٹھ کر میکے جا پہنچی ہوں یا گھر پر ہوں بھی تو آپ کا استقبال کچن میں زیرِاستعمال اشیاء سے کرنے کی تیاری کر رہی ہوں۔

صاحبو کچھ بھی ممکن ہے، محتاط ہی رہیے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے۔

کُل ملا کر اِس ساری گہما گہمی کو ملاحظہ کرنے کے بعد فقیر اِس نتیجے پر پہنچا ہے کہ جواب تو دور کی بات ہم بحیثیت ِقوم ابھی سوال پوچھنے کی بھی اہلیت نہیں رکھتے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).