نظام عدل اور کڑوا سچ


ہمارا انصاف کا نظام صرف حکمران اور طاقتور طبقہ کے مفادات کو تحفظ مہیا کرتا ہے۔ یہ غریب عوام کے مخالف اور عام آدمی کی پہنچ سے دورہے۔

موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ ایک انتہائی پروفیشنل اور پڑھے لکھے جج ہیں۔ چیف جسٹس آصف سعید نظام عدل میں تبدیلی کے بھی قائل ہیں۔ اگر موجودہ حکومت چیف جسٹس کھوسہ کی اسی طرح حمایت کرتی جس طرح انہوں نے سابقہ چیف جسٹس نثار کے ڈیم بنانے کے منصوبہ کے لئے بھرپور ساتھ دیا تھا تو نظام عدل میں بہتری کی توقع کی جا سکتی تھی۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنی چند ماہ پہلے کی ایک تقریر میں نقطہ اٹھایا کہ پورے ملک میں تقریباٍ 1.9 ملین کیسز التواء کا شکار ہیں لیکن ان کیسز کو نمٹانے کے لئے صرف 3000 ہزار جج موجود ہیں جو کہ ناکافی ہیں۔ انہوں نے یہاں پر عدالتی نظام کی صرف ایک خرابی یا اس بیماری کی صرف ایک علامت کا ذکر کیا ہے۔ صرف ججوں کی تعداد بڑھانے سے یہ فرسودہ نظام درست نہیں ہو گا بلکہ اس بیماری کی تمام وجوہات کے خاتمے سے ہی بہتری آئے گی۔

عدالتی نظام کا سب سے بڑا مسئلہ کثیرالتعداد میں کیسز کے التواء کا ہے۔ ایک کیس کو نمٹانے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں یا پھر کیسز کو سنا ہی نہیں جاتا۔ مہذب دنیا میں اس بات کو مانا جاتا ہے کہ لیٹ مہیا کیے جانے والا انصاف اصل میں ناانصافی کے برابر ہوتا ہے۔ د وسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں روزانہ اتنے کیسز کا فیصلہ نہیں ہوتا جتنے نئے کیسز کا اندراج کیا جاتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے اور غیر اہم مسائل پربھی کیس کا اندراج کروا دیا جاتا ہے۔ جب کیسز کی تعداد بڑھے گی تو پھر یقینا ان کے فیصلوں کے برابر اپیلوں کی تعداد بھی بڑھے گی اور یوں عدالتی نظام جام ہوتا چلا جائے گا۔ یہی چیز کیسز کے التواء کی بھی موجب بنتی ہے۔

افسوس دہ بات یہ ہے کہ اس مسئلے کے حل کے لئے بڑے اقدام تو چھوڑیں کسی نے چھوٹے چھوٹے اقدام بھی نہیں اٹھائے جیسے اپیل متعلقہ عدالت سے اجازت لینے کے بعد درج ہو۔ اس طرح سے صرف وہی اپیل درج ہو گی جو عدالت موزوں سمجھے گی اور عدالت کا فضول اپیلوں میں ٹائم ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ اسی طرح فضول قسم کے کیسزاور اپیلیں درج کر کے عدالت کا وقت ضائع کرنے والے شخص کو جرمانہ کیا جائے تاکہ دوسروں کی اس ضمن میں حوصلہ شکنی ہو۔ جس اعلیٰ عدالت میں اپیل درج ہو اس عدالت کو صرف قانونی تقاضوں کو دیکھنا چاہیے اور فیکٹس کو دوبارہ سے نہیں کھولنا چاہیے۔ اس سے اپیل جلد نمٹائی جا سکے گی۔

عدالتی نظام کا تیسرا بڑا مسئلہ قانونی پیچیدگیاں اور قانون کا ہماری معاشرتی ضروریات سے ہم آہنگی کے فقدان کا ہے۔ معاشرے کو کنٹرول کرنے والے ہمارے قانون میں اورعدالتی سسٹم میں بہت زیادہ خرابیاں، کمزور پوائنٹس اور جرم کی سزا سے بچنے کے لئے جگہ موجود ہے۔ ایک گواہ ایک دفعہ کوئی بیان دیتا ہے تو بعد میں مالی لالچ میں آکر یا طاقتور کے ڈر سے وہ بیان تبدیل کر لیتا ہے۔ قانون گواہ کو یہ آزادی صرف طاقتور کے جرم کو چھپانے کے لئے دیتا ہے۔

جب سارے اہل علاقہ کو کنفرم ہوتا ہے کہ فلاں جرم فلاں شخص نے کیا ہے لیکن جب تک عدالت میں ان میں سے کوئی گواہی نہیں دے گا تو مجرم کو سزا نہیں مل سکتی۔ یہاں پر ہمیں جدید سائنٹیفک آلات اور ٹیکنالوجی کو گواہ کا درجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے کیسز میں خفیہ ذرائع سے معلومات اکٹھی کرنے کے ساتھ ساتھ جج کو پولیس کے ساتھ مل کر دوبارہ سے انوسٹیگیشن کر نی چاہیے۔

اسی طرح کی اور قسم کی قانونی خامیوں سے فائدہ اٹھانے میں ایک ذہین اور جھوٹے وکیل کا کردار بھی آجاتا ہے۔ وکالتی دنیا کے کامیاب (ہمارے معاشرے کا یہ اخلاقی المیہ ہے کہ ہم اس شخص کو کامیاب مانتے ہیں جس نے جھوٹ، فراڈ، کرپشن، خوشامد اور غلط طریقے سے کافی سارا پیسہ اکٹھا کیا ہو) وکیل جن کی فیس صرف امیر لوگ ہی بھر سکتے ہیں وہ عدالت میں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ ثابت کر دیتے ہیں۔ غریب کو مفت اور امیر کے برابر مواقع فراہم کرنے کے علاوہ انصاف کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ کو جڑ سے اکھا ڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ وکلاء پر بھی چیک اینڈ بیلنس لگانے کی ضرورت ہے۔

جج حضرات کو بھی اسی طرح کی آزادی میسر ہے۔ ایک قاتل کوسیشن کوٹ موت سزا سناتی ہے تو ہائی کوٹ اسے بری کر دیتاہے یا اس کی سزا کو بدل دیتاہے۔ یہاں پر تو پانچ آدمیوں کو دن دیہاڑے دنیاکے سامنے قتل کر دینے والے ملزموں کو جنہیں سیشن کوٹ موت سزا سنا چکی ہوتی ہے، کو اپیل کے دوران ہائی کوٹ بری کر کے رہا کر دیتا ہے۔ ایسے میں مقتولوں کی روح اور ان کے لواحقین کو کون سا انصاف ملتاہے؟ جب ملزموں کو رہا کر دیا جاتا ہے تو بتایا جائے اصل قاتل کہاں ہیں؟

کیا قاتل کوئی خلائی مخلوق ہوتی ہے؟ سیشن کوٹ اور ہائی کوٹ میں سے کون غلط ہے اس بات کا ان سے جواب کون طلب کرے گا؟ ایسا کرنے سے معاشرے کا اعتماد ہماری عدالتوں پر بڑھے گا یا کم ہوگا؟ ایسی نا انصافی سے مجرم ذہنیت کے لوگوں کا حوصلہ بڑھے گا یا ان کی حوصلی شکنی ہو گی؟ یہی وجہ ہے کہ پولیس ان کاؤنٹر جیسے غیر قانونی حربوں کو استعمال کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔

اسی طرح ایک ہی قسم کے جرم کی پاداش میں ایک مجرم کوزیادہ تو دوسرے کو کم سزا کیوں دی جاتی ہے؟ مثال کے طور پر دو منشیات فروش جن پر تیرہ تیرہ سو گرام منشیات برآمدگی کی ایف آئی آر لانچ کی گئی ہو تو ان میں سے ایک مجرم کو ایک جج چار سال سزا سناتا ہے جبکہ اتنے ہی جرم میں دوسرے مجرم کوکسی اور عدالت کا جج ڈیڑھ یا دو سال سزا دیتا ہے۔ یہاں پر انصاف میں برا بری کہاں گئی؟ انصاف کے دو مختلف ترازو ہونے کی وجہ سے زیادہ سزا کھانے والا مجرم سوچے گا کہ اس کے ساتھ انصاف نہیں ہوا۔ ججز کو ایسی آزادی کیوں؟ اسی طرح انصاف کے حصول کے لئے پولیس کے نظام کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہر ایف آئی آر شفاف حقائق کے تناضر میں کاٹی جائے۔

یہاں پر لاء ہاؤسز کی بھی بات آتی ہے۔ پاکستان میں ججز کی فیملی یا رشتوں داروں میں سے کوئی بھی وکیل اسی رشتہ دار جج کی عدالت میں وکالت کر سکتا ہے۔ ایسے میں اپنے وکیلوں کو کیسز جتوانے کے چکر میں انصا ف کی بلی چڑھا دی جاتی ہے۔ ہمارے ساتھ ہی معرض وجود میں آنے والے ہمارے پڑوسی ملک انڈیا نے ایسی لعنت سے جان چھڑانے کے لئے ایڈوکیٹ ایکٹ 1962 کو تشکیل دیا جس کی شق نمبر 6 کے مطابق کسی جج کا رشتہ دار وکیل اس عدالت میں پریکٹس نہیں کرسکتا جہاں پر اس جج کی پوسٹنگ ہو۔ لیکن بد قسمتی سے ہمارے ہاں ایسا سوچنے کی فرصت کسے!

انڈیا کے گیارہویں فنانس کمیشن نے زیرالتواء کے شکار کیسز کو نمٹانے کے لئے اور عدالتی سسٹم کی بہتری کے لئے خاص رقم مختص کر کے فاسٹ ٹریکنگ کو ر ٹس ( (Fast Tracking Courtsکو قائم کیاجنہوں نے 2001 اور 2012 کے درمیان 3 ملین سے زیادہ کیسز کو نمٹایا ہے۔ اس کے برعکس ہمارے سیاستد دانوں نے دہشت گردی میں ملوث اور سٹیٹ کے خلاف جرم کرنے والے مجرموں کو جلد اور کڑی سزا دلوانے کے لئے ملٹری کوٹس کو قائم کروا دیا۔ کاش ہما رے سیاستدان یہ سمجھتے کہ سٹیٹ اور ملکوں کے قیام کا انحصار اس کے باشندوں کے سکون اور اطمینان پر ہوتا ہے اور ہمارے عدالتی نظام کی نا اہلی دہشت گردی کی وجوہات میں سے ایک وجہ ہے۔ انسان ہتھیار تب اٹھا تا ہے جب اسے انصاف کی توقع کہیں سے بھی نہیں ہوتی۔ تاہم ہمیں شارٹ کٹس لینے کی بجائے نظام عدل کو مستقل بنیادوں پر درست کرنے کے لئے اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔

اس سے اگلا مسئلہ ججز کی تقرری کا ناقص طریقہ کار اور ججوں کی کوالیفیکشن اور ان کی ٹریننگ کا ہے۔ کسی بھی پروفیشنلز پر مبنی کمیشن کے تحت میرٹ پر تقرری کیے جانے کی بجائے متعلقہ کوٹس کے چیف جسٹس کو تقرری کا اختیار دے کر سلیکشن کا ہیڈ بنانا نظام عدل کے ساتھ ایک زیادتی ہے۔ ہر آنے والا چیف جسٹس اپنی پسند کی ٹیم لانے کی کوشش کرتا ہے جسے ذاتی مفاد کی خاطر کیے جانے والی سیاست کا نام تو دیا جاسکتا ہے لیکن میرٹ اور کوالیفکیشن کی بنیاد پر کی جانے والی بھرتی نہیں کہا جا سکتا۔

یہاں پر سیاسی مداخلت اور ذ اتی تعلقات کے ساتھ ساتھ کرپشن جیسے ہتھکنڈے بھی انصاف کی کرسی کے لئے بھرتی کیے جانے والے ججز کی بھرتی میں اپنے رنگ کھل کر دکھاتے ہیں۔ اس لئے ایک ایسا آزاد کمیشن بنایا جائے جو اس طرح غلط طریقے سے بھرتی کیے جانے والے لوگوں سے جان چھڑوائے تاکہ ہماری معزز عدالتوں سے انصاف کی توقع کی جا سکے۔

نئے بھرتی کیے جانے والے ججوں کو وسیع پیمانے پر ٹریننگ دی جانی چاہیے جس کے دوران انہیں یونیورسٹیوں میں او رماہر قانون دانوں اور پروفیشنلز پر مشتمل ٹریننگ سنٹر سے پروفیشنل ٹریننگ دلوائی جائے تاکہ وہ فیلڈ میں آکر انصاف کا فریضہ بخوبی سرانجام دے سکیں۔ ٹریننگ میں ایک مضمون ذاتی، معاشی اور قانونی اخلاقیات کا بھی شامل ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ ایک متحرک ادارہ عدالتوں کی کار وائی کو چیک کرنے کے لئے بھی ہونا چاہیے جس کے سامنے جج حضرات اپنے کام کے متعلق مکمل طور پر جواب دہ ہوں اور وہ ادارہ عدالتی کارروائی پر مسلسل نگاہ قائم رکھے۔

ان مسائل سے نمٹنے کے لئے ہمیں اپنے معاشرے کی ضروریات کے مطابق، ایک سادہ عام فہم اور رکاؤ ٹوں سے پاک عدالتی نظام متعارف کرانے کی ضرورت ہے۔ انصاف کسی معاشرے میں ہم آہنگی، اطمینان، اتفاق اور ترقی کے ساتھ ساتھ تمام تر قومی مفادات کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے اس لئے ہمیں ایک آزاد، جمہوری، جدید، عصر حاضر کے تقاضوں کے عین مطابق پروفیشنل جوڈیشری اور جوڈیشیل نظام کی ضرورت ہے۔ عدل کے ادارے کے ٹھیک کام کرنے سے ہر ادارہ خود بخود ٹھیک کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ اور اعلیٰ عدلیہ کو مل کر ہنگامی بنیادوں پر اس قومی مسئلے کو حل کرنے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).