الوداع مسٹر چپس


موضوع اگرچہ پُرانا ہے لیکن اس کے اثرات چونکہ دیرپا ہونے کا امکان ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس پر بات کی جائے۔ تو قصہ کچھ یوں ہے کہ کوئی دو ماہ قبل میں نے گھر داخل ہوتے ہی حسب معمول فیس بُک کا رُخ کیا تو مجھ پر انکشاف ہوا کہ 55 سال سے انٹرمیڈیٹ کے انگریزی نصاب کا حصہ رہنے والے ناول مسٹر چپس کو خُدا حافظ کہہ دیا گیا ہے۔ میں نے اور مجھ جیسے کئی لوگوں نے اس وقت کیا محسوس کیا ہو گا اس کو لفطوں میں بیان کرنا ذرا مُشکل ہے۔

دور طالب علمی میں بوجھ سمجھ کر نپٹانے والے ناول کو جب کچھ عرصہ بعد پڑھا تو یقین جانیے احساسات یکسر مختلف تھے۔ مسٹر چپس کی جگہ سیرت النبی ﷺ کو انگلش کے نصاب میں متعارف کروایا جا رہا ہے جو کہ یقینا ایک خوش آئند بات ہو سکتی ہے اگر اُس پر عمل کیا جائے اور عمل ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمارا اُتنا ہی واسطہ ہے جتنا امریکی حکومت کا بین الاقوامی امن سے ہے۔

اس ناول پر کیے جانے والے اعتراضات کی طرف آئیں تو پہلا اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ناول نوجوانوں میں رومانوی جذبات جگاتا ہے اور اُنہیں جنسی سرگرمیوں کی طرف راغب کرتا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اسلامی معاشرے میں ایک انگریز کی تصنیف کیوں پڑھائی جا رہی ہے۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ مسٹر چپس کی زندگی کے بارے میں کیوں پڑھا جائے جب پڑھنے کے لیے سیرت النبی ﷺ موجود ہے۔

سب سے پہلے اعتراض کے بارے میں مجھے یہی کہنا ہے کہ کوئی ایک ایسا نوجوان تلاش کر کے دکھا دیجئے جس نے یہ ناول پڑھا ہو اور بے اختیار اُسکے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی ہو کہ ایک عدد معاشقہ چلایا جائے۔ اگر اُردو کے نصاب میں موجود غالب و میر کی غزلیں نوجوانوں میں جنسی ہیجان پیدا نہیں کرتیں تو مسٹر چپس کی طرف دیکھ کر کیتھرین کا الودع مسٹر چپس کہنا بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اعتراض کرنے والوں نے پورا ناول چھوڑ کر اُسکا حصہ بننے والی ایک چھوٹی سی لو اسٹوری پر توجہ کی جس کا انجام بھی شادی اور بعد ازاں شریک حیات کی موت پر ہوا۔

اس پورے حصے میں جنسی کشش کا پہلو صرف وہی قوم نکال سکتی ہے جو بالغ فلموں کی تلاش میں پہلے نمبر پر ہو۔ دوسرا اعتراض اسلامی معاشرے میں انگریز کی تصنیف پڑھانے پر کیا جاتا ہے۔ اتنی غیرت مند قوم جب مغرب کی ایجادات سے فائدہ اُٹھاتی ہے اور میڈیکل و دیگر شعبوں میں اُنہی انگریزوں کی کتابیں پڑھتی ہے تو مجھے ہنسی آتی ہے۔ اُردو کی کتاب میں اُردو دانوں کی کاوشوں کا ہونا ضروری ہے تو مجھے یاد دلانے دیں کہ انگریزی بھی ایک زُبان ہے جس کی فصاحت و بلاغت کو تب ہی سمجھا جا سکتا ہے جب کسی انگریز مصنف کو پڑھا جائے۔

تیسرا اعتراض سیرت النبی ﷺ کی موجودگی میں مسٹر چپس کی زندگی کو پڑھنے پر کیا جاتا ہے۔ پہلی کلاس سے شروع ہو کر گریجویشن تک پڑھی جانے والی اسلامیات کی کتاب اگر کسی کو باعمل مسلمان نہیں بنا سکی تو یقین کیجئے ایک اور کتاب کا اضافہ کرنے سے کچھ نہیں ہونے والا۔ اتنے فرقوں میں بٹی قوم کس فرقے کے اعتقادات سے مطابقت رکھنے والی سیرت النبی کو قابل قبول سمجھے گی۔ ہماری قوم خطرناک حد تک منافقت کا شکار ہو چُکی ہے ذرا تصور کیجئے ایک ایسے معاشرے کا جہاں ایک مسلما ن کو زبردستی حضرت عیسی علیہ السلام یا ہندوؤں کے کسی دیوی دیوتا کے بارے میں پڑھنے پر مجبور کیا جائے۔

ایسی صورتحال میں ہم سڑکوں پر نکل آنے میں شاید ایک لمحہ کی بھی تاخیر نہ کریں تو پھر ہم کیونکر ایسی ہی صورتحال اقلیتوں کے لیے پیدا کر رہے ہیں۔ کیا اقلیتی والدین کے لیے یہ بات فکر کا باعث نہیں ہو گی کہ اُنکے بچے اپنے دین سے منکر ہو سکتے ہیں۔ اقلیتی طلبا و طالبات جو پہلے ہی وسائل کی کمی کے باعث اخلاقیات کے مضمون کی بجائے اسلامیات پڑھنے پر مجبور ہیں ایسے میں اُنہیں لازمی نصاب کی صورت میں ایک اور ایسی ہی کتاب پڑھنے پر مجبور کرنا کہاں کا انصاف ہے۔

سیرت النبی نہایت وسیع ہے جس کو کو ایک الگ آپشنل مضمون کے طور پر پڑھایا جا سکتا ہے۔ جس کے کے بارے میں پڑھنا کسی بھی مسلمان کے لیے باعث مسرت ہی ہے لیکن خدارا مذہب کو ہر جگہ اور ہر کسی پر مسلط نہ کریں۔ ہر مضمون کو اُسکی صحیح روح کے مطابق ترتیب دیں نہ کہ اندھی مذہبی عقیدت کی بنیاد پر۔

ٓ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).