رب کی بے پایاں رحمت کے طلبگار


بی اے انگلش لٹریچر کے ساتھ کرنے کا خیال پتا نہیں ذہن میں کیسے سمایا؟ بس دل میں ٹھانی تو اگلے دن ٹرین کا ٹکٹ لیا اور عازمِ مُلتان ہوئے۔ مہر ایکسپریس ٹرین کہ جس کے ساتھ اگلے کئی سالوں تک سفر کرتے اور پروفیسر کاشف مجید سے ”حسن کوزہ گر“ سُنتے گُزار دیے۔

بہا الدین ذکریا یونیورسٹی کے عمر ہال میں کیمسٹری میں ماسٹر کرتے لنگوٹیے سمیع اللہ کے دروازے پر دستک دی اور اُسے اپنی آمد کا مُدعا بیان کیا۔ پروفیسر سمیع اللہ کہ جسے آج تک ادب کی الف کا پتا نہیں چلا بھلا بی اے کے لٹریچر کے نوٹس ہمیں کہاں سے لا کر دیتا؟

دوپہر کو میس ہال سے ذائقہ دار چکن پلاؤ کھا کر ڈی جی خان سے انگلش ڈیپارٹمنٹ کے ایک لڑکے کے دروازے پر دستک دی تو اُس نے ہمیں گورنمنٹ کالج بوسن روڈ کا راستہ دکھایا کہ بی اے میں انگلش لٹریچر کے بس وہیں چند سٹوڈنٹ تھے۔

گورنمنٹ کالج کے اقبال ہال میں داخل ہو کر پہلے دروازے پر دستک دے کر اپنی درخواست دُہرائی تو اُس نے ہمیں آگے ایک کمرے کا پتہ دیا۔ پھر دستک۔ اور سامنے بیٹھے لمبے بالوں والے لمبے لڑکے سے مصافحہ کر کے سمیع اللہ نے میرا اور اپنا تعارف کروا کر آنے کا مُدعا بیان کیا ”میرا دوست لیہ سے آیا ہے اور اسے لٹریچر کے نوٹس چاہئیں“۔

موصوف نے اپنا نام ”عبدالقادر“ بتایا اور بے ترتیب کتابوں کے ایک ڈھیر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ”دیکھ لیں آپ کو جو چاہیے آپ لے جائیں، فوٹو کاپی کروا کر مجھے واپس کر دیجیے گا“

کمال کا ظرف، نفیس اور دھیما لہجہ اور تعاون کرنے والا انداز۔ میں سوچنے لگا، بس اتنا سا تعاون، اتنی سی مدد چاہیے ہوتی ہے، لوگ کر دیں تو انہیں کیا فرق پڑتا ہے؟ لیکن نہیں۔ پڑتا ہے، اللہ اپنے خزانوں سے اُنہیں نواز دیتا ہے۔ موصوف سی ایس ایس کر کے پولیس سروس میں آگئے اور آج کل پولیس میں ایک اعلیٰ عہدے پر فائز ہیں۔

بی اے انگلش لٹریچر کے پیپر دیے تو ہال میں میں اکیلا سٹوڈنٹ کہ بی اے میں چار سو نمبر کی انگریزی بھلا کون بے وقوف پڑھتا۔ خُدا خُدا کر کے رزلٹ آیا تو مارکس میری توقع سے کہیں زیادہ تھے اور یوں بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی کے انگلش ڈیپارٹمنٹ کا پہلا رول نمبر اس خاکسار کے حصے میں آیا۔ کہاں لیہ سے پرائیویٹ بی اے کر کے آنے والا پینڈو جسے یہ سمجھتے سمجھتے مہینہ لگ گیا کہ ”کرسٹوفر مارلو اور ڈاکٹر فاسٹس“ میں سے رائٹر کون سا ہے اور ڈرامہ کا عُنوان کون سا، اور کہاں معروف ڈاکٹر کی بوائے کٹ میں میرے سامنے تشریف فرما وہ بیٹی جسے ولیم شیکسپیئر کے چھتیس پلے ازبر تھے۔ سُبحان تیری قُدرت۔

ایم اے انگلش میں پھنس گئے تو سوچا باعزت طریقے سے نکلا جائے، پینڈو سٹوڈنٹ کو ”چاسر کی کینٹر بری ٹیلز“ خاک سمجھ آنی تھی، سو انگریزی ادب کے مانے تانے پروفیسر خان صاحب کو عرضی گزاری کہ ”حضور تھوڑا سا وقت عنایت فرما دیں، پہلے تو چِٹا انکار کہ وقت نہیں، اصرار پر راضی ہوئے تو اتنی شفقت سے پڑھایا کہ تہجد تک میں ہماری کامیابی کی دُعائیں مانگا کرتے تھے۔ پہلے چند دن میں ہی معلوم ہو گیا کہ خان صاحب کے لاڈلے سٹوڈنٹس دو ہی ہیں، ایک کوئی مریم بی بی اور ایک شہزاد صاحب، ( دونوں فرضی نام) ہر دوسرے فقرے میں مریم یا شہزاد کی توصیف۔

ہم ہی نہیں خان صاحب کے حلقۂِ ارادت میں شامل ہر طالبعلم کے اعصاب پر مریم اور شہزاد ہی سوار تھے، ہمارا حسد یا رشک اپنی جگہ مگر خان صاحب کے دونوں لاڈلے واقعی ہی لائق فائق تھے، شہزاد صاحب تو بڑی گاڑی پہ آتے اپنے حصے کا کام کرتے اور دُعائیں سمیٹتے رُخصت ہو جاتے۔ شہر بھر کو یقین تھا کہ مریم اور شہزاد کے علاوہ یونیورسٹی ٹاپ کرنا کسی مائی کے لعل کے بس کی بات نہیں، مریم سے تو کبھی آمنا سامنا نہیں ہوا پر شہزاد صاحب بھلے آدمی تھے دھیما بولتے، اپنے کام سے کام رکھتے بس ایک خامی تھی اپنے نوٹس کو ہوا تک نہیں لگنے دیتے، کوئی کتنا اصرار کرتا، یا ٹال مٹول یا کورا جواب، ایک اسائینمنٹ تو خان صاحب کے کئی دفعہ کہنے کے باوجود بھی ہمیں نہیں دکھائی۔

ایسا لگتا تھا شہزاد صاحب میں دوسروں کی مدد والا کوئی جین ہی نہیں تھا۔ دوسری طرف ہم نے اپنی ساری متاع بیچ چوراہے رکھی ہوئی کہ جس کے جی میں آئے ”فیض“ پائے۔ رزلٹ اناؤنس ہوا تو شہزاد صاحب لکیر ہی کراس کر پائے تھے۔ اور ہمارے مارکس ہماری اوقات سے پھر زیادہ تھے۔ شہزاد صاحب نے اُس کے بعد بھی مقابلے کا ہر امتحان دیا پر بدقسمتی سے اپنی انتہائی قابلیت کے باوجود کسی امتحان کے فائنل راؤنڈ میں سیلیکٹ نہ ہو سکے۔ خدا نے مجھ پر رحمت کی اور میرے لئے یہ منزل آسان ہو گئی۔

میں سوچنے لگا اپنی چیزیں بانٹنے سے دوسروں کی ہلکی سی مدد کرنے سے کیا فرق پڑتا ہے؟
لیکن نہیں۔ پڑتا ہے۔ ہمارا رب ہمارے لئے اپنی رحمت کے خاص دروازے کھول دیتا ہے۔
ہم نکمے تو اُس کی بے پایاں رحمت کے عینی شاہد ہیں، آپ بھی آزما دیکھیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).