کائرہ صاحب، ہم شرمندہ ہیں


بار بار وہی موضوع، بار بار وہی کالم۔ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو شاید کل کو صرف فلمی ستاروں کے بارے میں ہی لکھوں۔ کم سے کم کپڑے تو بدلتے ہیں۔ یہ معاشرہ تو چہرے تک نہیں بدلتا۔ وہی تعفن میں ڈوبی غلاظت کی ڈھیریاں، وہی بدبودار پانی کے شاپر جنہیں چھت پر سے نیچے چلتے راہگیروں پر پھینکا جاتا ہے۔

جب اجلے کپڑوں میں ملبوس یہ شخص بیچارگی سے ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ آفت کہاں سے ٹوٹی تو ایک طوفان بدتمیزی برپا کیا جاتا ہے۔ مکروہ قہقہے فلک کو چیرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ آسماں بھی تو ایک پروہت ہے۔ راکھ اور سیندور ملے گا لیکن بہت ہو گیا تو مالا جپ لے گا۔ اور کسی قابل نہیں۔ اپنی جگہ پر یوں ہی کھڑا رہے گا۔ اسی طرح ایک ٹانگ پر، ایک ٹک گھورتا ہوا۔

یہاں کچھ نہیں بدلتا۔ نہ غلاظت کی ڈھیریاں، نہ اجلے کپڑے پہننے والے کی بیچارگی، نہ مکروہ قہقہے۔ ہاں سنا ہے کچھ تبدیلی آئی ہے۔ شاید قہقہے بلند ہو گئے۔ آواز اس قدر اونچی ہے کہ لگتا ہے کان پھٹ جائیں گے۔ یہ شور باہر کا ہے یا اندر کا؟ واللہ اعلم!

کہتے ہیں موت بر حق ہے۔ سب کو آنی ہے۔ سب کو سمیٹے گی۔ سب کو اپنی آغوش میں یوں سمیٹ لے گی جیسے ماں ہو۔ مرنے کے بعد کی کہانی سے ہم ناآشنا ہیں۔ یہ نہیں جانتے کہ مرنے والا۔ کن تاریک پیچ گھاٹیوں پر اپنا راستہ کھوجتا ہے۔ ٹٹولتا ہے۔ لیکن مرنے والوں کے پیچھے رہ جانے والوں کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔ مرنے والا تو مر جاتا ہے۔ لیکن پیچھے رہنے والوں کا بھی ایک حصہ اپنے ساتھ ہی لے جاتا ہے۔ نہ مرنے والا لوٹتا ہے اور نہ ہی وہ زندہ رہنے جانے والوں کی ذات کا ایک ٹکڑا۔ بس خلا باقی رہ جاتا ہے۔ وہ خبر گھر والوں پر کیا بن کر ٹوٹتی ہے، قیامت کس رخ سے جھانکتی ہے، دل کیسے بند ہوتا ہے، دھڑکنیں کیسے اپنا آپ کھو بیٹھتی ہیں۔ جس تن لاگے وہ تن جانے۔

سب افسوس کے لئے آتے ہیں۔ یا یوں کہئے رسم دنیا نبھانے آتے ہیں۔ گھر والوں کو صبر کی تلقین کرتے ہیں۔ آسان ہے نا۔ کسی بھی مرنے والے کی ماں کو کہو کہ صبر کرو۔ پڑھ کر بخشو۔ ارے، اس گھبرو کو تو ثواب بخش دوں گی۔ جو میری ذات کے ٹکڑے کرچیاں بن کر خلا میں بکھر گئے ان کی فاتحہ کون پڑھے گا؟ آج بھی اپنے پھوپھا جان کی میت نظروں کے سامنے گھومتی ہے۔ ان کی اکلوتی بیٹی میت کو جنازہ گاہ جانے دینے پر بھی راضی نہیں تھی۔ پیچھے رہ جانے والوں کا پرسان حال کون ہو گا؟ خدا جانے۔

سچ تو یہ ہے کہ وقت گزر جاتا ہے۔ لیکن غم ہمیشہ ایک تاریک یاد کی شکل میں نظروں کے سامنے رہتا ہے۔ وہ فون کال، وہ دل کا کانپنا، وہ سکتہ طاری ہونا، وہ بے یقینی، وہ بے خود بہتے آنسو، وہ رشتے داروں کا موت کی بریانی میں کم بوٹیوں کا گلہ کرنا، وہ قل کی گٹھلیوں پر بیٹھی محلے والیوں کا دبی آواز میں کسی کا مذاق اڑاتے ہوئے ہنسنا۔ یہ سب یاد رہتا ہے۔ مرنے والے شاید کچھ دیکھ سن نہیں سکتے۔ زندہ رہ جانے والوں کی بد قسمتی یہ ہوتی ہے کہ وہ نہیں مرتے۔ زندہ لاشوں کی مانند چلتے پھرتے سنتے سوچتے رہتے ہیں۔

ابھی کل ہی پیپلز پارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ صاحب کے جواں سال بیٹے کا یک دم انتقال ہوا۔ اس وقت ایک پریس کانفرنس میں تھے جب ایک رپورٹر نے حادثے کی خبر ان کو سنائی۔ وضع داری کا یہ عالم دیکھئے کہ پھر بھی ’تھینک یو‘ بول کر رخصت چاہی۔ نہ صرف اس کی ویڈیو بنی بلکہ سوشل میڈیا پر گردش بھی کرتی رہی۔ یہی نہیں کچھ لوگوں نے اس جوان موت پر بھی اپنی ہرزہ سرائی سے پرہیز نہ برتا۔ وہی بیانیہ جو کئی سالوں سے ہمارے کانوں میں گھولا جا رہا ہے وہ ایک بار پھر سیسے کی طرح سماعتوں میں پگھلایا گیا۔ موت کو بھی ایک جوان بیٹے کے نڈھال باپ کی ’کرپشن‘ کی سزا قرار دیا گیا۔ زمینی خدا روز حشر کا حساب تو کر ہی بیٹھے ہیں۔ یا یوں کہئے کہ یہی وقت قیامت ہے۔

اسی پر اکتفا نہیں بلکہ جن لوگوں نے اس رویے پر آواز اٹھائی ان کو بھی تضحیک اور ٹرولنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کو بھی یہ باور کرایا گیا کہ سب اچھا ہے۔ تمہاری ہی عینک میلی ہے۔ یہ دیکھو ہمارے چشمے سے تو سب ہرا دکھ رہا ہے۔

ہمیں یاد ہے کہ بچپن میں ہم جب بھی گرتے تھے تو ایک سہیلی خوب ہنستی تھی۔ ہم کیا کوئی بھی گرتا تھا تو وہ بہت ہنستی تھی۔ بچپن ایسا وقت ہوتا ہے کہ انسان کو سب جیسا بننے کا شوق ہوتا ہے۔ یہ ہنسنے کی کوشش ہم نے بھی کی لیکن ناکام رہے۔ اچھا ہی ہوا۔ کسی کی تکلیف میں کیا خوشی ہے؟ شکر ہے ہم نہ جان پائے۔ لیکن اس سہیلی کی ہنسی آج بھی یاد ہے۔

یہ وقت گزر جائے گا۔ حکومتیں بھی آنی جانی چیز ہیں۔ کائرہ صاحب بھی کسی حد تک سنبھل جائیں گے۔ ہاں ذات کا خلا کبھی پر نہیں ہو گا۔ لیکن غلاظت کی تھیلیاں، بدبودار پانی کے شاپر اور مکروہ قہقہے یاد رہیں گے۔ اس پریس کانفرنس کی ایک ایک یاد ان کے ذہن پر نقش رہے گی۔

موت حقیقت ہے۔ آج کائرہ صاحب کے گھر بیٹھی ہے۔ کل کسی اور کی مہمان ہو گی۔ تب یہ زمین کے خدا کیا تاویل پیش کریں گے؟ یہ غلاظت کی تھیلیاں تب بھی برستی رہیں گی؟ کیا اپنی تکلیف سے بھی خوشی اور عبرت کشید کی جائے گی؟

نہ ہمیں وہ ہنسی بھولتی ہے نہ اپنی پھوپھی کی بیٹی کا جنازے کی چارپائی سے چمٹنا۔ کائرہ صاحب کے لئے بھی یہ آواز اور بدتمیزی بھلانا مشکل ہو گا۔
سمجھ نہیں آتی کہ جوان موت کا غم کریں یا اس معاشرتی اقدار اور تہذیب کے جنازے کو کاندھا دیں۔ عجیب کشمکش ہے۔
کائرہ صاحب، ہم شرمندہ ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).