کی جاناں میں کون


شناخت، نام و نصب کے جھگڑے کرتے ہم سب آخر میں بے نام و نشان ہیں۔ ہم میں سے کتنے ہیں جنہیں اپنے پڑ دادا کانام یاد ہوگا۔ کتنے ہیں جو جانتے ہوں کہ ان کے اباؤ اجداد کہاں سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور شاز ہی کوئی ہو گا جسے اپنے پڑ دادا سے محبت کا احساس ہوتا ہو۔ پھر بھی ہم جھگڑتے ہیں اپنی ”میں“ کے دائرے میں خود کو مقید کرتے ہیں۔ اپنی اناوں کو سنچتے ہیں اور دوسروں کی عزت نفس کو روندتے ہیں۔ دوسروں کے وقار کی لاش پہ اپنا قد بلند کرکے سینہ پھلا کے خوش ہوتے ہیں۔ کہیں رتبہ مل جائے تو اپنا حق سمجھتے ہیں کہ خود سے ادنی کو روندا جائے۔ کوئی کمزور نظر آئے تو اسے دھمکاتے ہیں کہ اپنی عزت کی دھاک بٹھا سکیں۔

جب کہ انسان کچھ بھی نہیں ہے۔ اس کی اہمیت کیا ہے۔ مرنے کے بعد اسے کتنا عرصہ یاد رکھا جا سکتا ہے۔ کتنا تھکا دینے والا عمل ہے کہ میت سے جان چھڑوانے کی کس قدر جلدی ہوتی ہے۔ یہ بے نام و نشان انسان ساری زندگی میں میں کرتا رہتا ہے۔ جبکہ منظر سے غائب ہو جائے تو کسی کہ گمان میں بھی نہیں رہتا کہ کوئی تھا بھی یا نہیں۔ یہ انسان کی حقیقت ہے۔

اتنا جھگڑا اتنا فساد کیوں جبکہ ہم سب اسی دائرے میں گھوم رہے ہیں اسی میں فنا ہو کے شاید کسی بلیک ہول کا انجانی دنیا کا حصہ بن جائیں گے۔ جہاں ہماری ذات شاید زروں کی شکل اختیار کر لے۔ ریت کے وہ زرات جو بے مول ہیں۔ انسان میں خود کو جانے جانے اور اپنا آپ منوانے کی جبلت موجود ہے۔ یہی جبلت اسے خوفناک روپ دیتی ہے تو کبھی وہ اپنی جمالیاتی حس کو استعمال کرتے ہوئے نفیس شہکار تخلیق دیتا ہے کبھی تحقیق کی شکل میں کائنات کے راز آشکار کرتا ہے۔

تو کبھی ماورائی دنیا کے تصور کو حقیقت کا روپ دینے کی کاوش۔ لیکن ہم سب ایک نہ ایک دن کھو جانے والے ہیں۔ یہ احساس بے مائیگی کا کم اور من کے ہلکے ہونے کا زیادہ ہے۔ ہونا اتنا اہم نہیں جتنا کہ نہ ہونا کہ اس میں دائرے کم، شناخت کے جھگڑے نہیں ہیں۔ ہمہ گیریت ہے۔ ایک بڑی سچائی ہے۔ کہ ہم سب آخر میں کچھ بھی نہیں ہیں ایک بے نام زرہ ہیں۔ بے شکل ہیولے، انجانے سائے۔ ہم سب آخر میں بے نشان ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).