دُنیا کے عجائبات اور اُن کے عجیب گھر


(عجائب گھروں کے عالمی دن کی مناسبت سے )

ویسے تو یہ دنیا خود ہی ایک ”عجائب گھر“ ہے، مگر اس ارض کے گولے پر گزرنے والی تاریخ (جس کا ایک قلیل حصّہ صدیوں سے ایک معمّہ ہے ) کو جاننے کی کوشش کے تحت تاریخ اور آثارِقدیمہ سے پیار کرنے والوں نے پوری دنیا میں جگہ جگہ ایسے مقامات بَنا رکھے ہیں، جہاں ایسے نوادرات رکھے جاتے ہیں، جو ہمیں کسی نہ کسی طرح سے ہمارے ماضی کا کوئی عکس دکھاتے ہیں۔ ہم سب میں سے بھی ہر کسی نے مختلف مُلکوں کے مختلف شہروں میں کئی ایک عجائب گھر دیکھ رکھے ہوں گے۔

گوکہ عجائب گھر کو زیادھ تر لوگ ”پرانی چیزیں رکھنے کی جگہ“ قرار دیتے ہیں، اور عمُومی طور پر عام لوگ (جن کی تاریخ سے دلچسپی نہیں ہوتی) وہاں نہیں جاتے، مگر کسی بھی خطّے کی تاریخ اور وہاں رہنے والے لوگوں کے مزاج سمجھنے کی غرض سے وہاں کے میُوزیمس دیکھنا بہت ضروری ہوتے ہیں۔ یہاں میرا ہلکہ سا تحفّظ نوٹ کیا جائے کہ میں لفظ ”میُوزیم“ کا جُوں کا تُوں مفہوم (ترجمہ) ”عجائب گھر“ کو نہیں سمجھتا، کیوں کہ ضروری نہیں کہ میُوزیم میں رکھی ہر چیز ”عجیب“ بھی ہو۔

مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ”اسپشلائیزیشن“ کے رجحان نے اب (عجائب گھر کے بارے میں معلُومات) ”میوزیولوجی“ (میُوزیم سائنس) کو بھی باقاعدھ طور پر ایک علم کی حیثیت مل گئی ہے۔ پہلے یُونیورسٹیوں میں ”تاریخِ عامہ“ (جنرل ہسڻری) کا ایک ہی شعبہ اور مضمُون ہُوا کرتا تھا، جس کو بعد میں ”علم الانسان“ (اینتھراپلاجی) اور ”آثارِ قدیمہ“ (آرکیالاجی) میں درجہ بند کیا گیا، جس کو اب مزید جن شاخوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ان میں سے ”میُوزیولوجی“ بھی ایک الگ علم کی حیثیت سے دنیا بھر میں پہچان پانے لگا ہے۔

اب میُوزیمس کی کلیکشن سے لے کر اُن کی تاریخ اور قدامت کے لحاظ سے تزئین، آرائش و نمائش ایک مُکمّل علم بن چُکا ہے، اور دنیا بھر میں اس علم کی نہ صرف تعلیم و تربیت دی جاتی ہے، بلکہ اس علم کے تحت میُوزیم آرٹ میں روزبروز مُختلف دلچسپ تبدیلیاں بھی آرہی ہیں۔ 1977 ء سے لے کر میُوزیم سے منسوب عالمی دن منانے کا آغاز کیا گیا، جس سے نہ صرف عجائب گھروں کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، بلکہ عجائب گھروں کو جدید سے جدید انداز میں سجا کر عام لوگوں کے زیادہ سے زیادہ قریب کیا جا رہا ہے، اور ہر شعبہ ہائے زندگی سے مُتعلق شخص کو یہ احساس دلایا جا رہا ہے کہ ہر شخص کا تعلق تاریخ سے بہرحال ہے، لہذا ہر شخص کا تعلق، میُوزیم سے بھی ہے۔

ہر سال 18 مئی کا دن اس نسبت سے منایا جاتا ہے۔ اِس برس اس دن کو ”عجائب گھر بحیثیت ثقافتی مراکز۔ روایت کا مُستقبل“ کے عنوان کے تحت منایا جا رہا ہے۔ جدید میُوزیمس کے ان تمام تر تصوّرات سے پہلے ہمارے ذہنوں میں جب یہ سوال اُبھرتا ہے، کہ ”دنیا کا پہلا میُوزیم کس نے، کہاں اور کب بنایا ہوگا؟ “ تو اُس کا جواب ہمیں بہت ہی دلچسپ ملتا ہے، اور یہ جواب اُتنا ہی حیرت انگیز اور دلچسپ ہے، جتنی ”موئن جو دڑو“ اور ”تِکشالا“ (ٹیکسیلا) میں موجود اس دور کی یُونیورسٹیاں۔

کیونکہ 1925 ء میں ہمیں ”لیونارڈ وُولے“ نامی ایک ماہرِ آثارِ قدیمہ نے بتایا کہ دنیا کا سب سے پہلا میُوزیم 2500 برس پُرانا ہے، جس کے آثار، وُولے کو ”بابُل“ (بیبیلون) سے ملے، جو بابُل کی ملکہ کی جانب سے اکٹھے کے گئے نوادرات پر مشتمل تھا۔ اِس میُوزیم کو وُولے نے 1929 ء میں ہی دریافت کیا تھا۔ تاریخ اس میُوزیم کا وجُود 530 قبلِ مسیح میں بتاتی ہے، جو ”میسوپوٹیمیم کلیکشن“ پر مبنی تھا (کیوں کہ بابل، میسوپوٹیمیائی تہذیب ہی کا حصّہ ہے ) آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے اس میُوزیم کا نام ”انیگلڈی ناناز میُوزیم“ رکھا۔

یہاں لگے ہاتھوں یہ بھی سُنتے چلیں کہ ”بابل“ اس کُرّہء ارض کا وہ قدیم ترین شہر ہے، جو اپنے وجود میں آنے اور بسنے سے لے کر آج تک آباد ہے، جس کا نُقطہء اختتام ابھی تک نہیں آیا۔ دنیا کے اس سب سے پہلے عجائب گھر کی دریافت کے حوالے سے ہم ذکر کر رہے ہیں 1920 ء کی دَہائی کا، یاد رہے کے یہ وہی دہائی ہے، جس کے دوران دنیا بھر میں آثارِ قدیمہ، عظیم تاریخی حقائق سے پردے اٹھا رہا تھا، خود ہماری ”سندھُو وادی تہذیب“ (انڈس ویلی سِولائیزیشن) کی نقاب کُشائی، اسی عرصے کے دوران، سر جان مارشل نے کی اور ہمیں اپنے خزینے کے حوالے سے علم جَبھی ہُوا۔

”میُوزیم“ کی سب سے سادہ اور ابتدائی تعریف کے طور پر یہ سمجھنا ٹھیک ہوگا کہ یہ تونگر لوگوں کی جانب سے قیمتی اور نایاب چیزوں (نوادرات) کا کلیکشن ہوا کرتا تھا، جس کو بعد ازاں عوام کی نمائش کے لئے بھی دستیاب کیا جانا ضروری سمجھا گیا، کیونکہ جو بھی اپنے پاس قیمتی اور نادر چیزیں سنبھال کے رکھتا ہے، اُس کا دل ضرور چاہتا ہے کہ وہ یہ چیزیں، باقی لوگوں کو بھی دکھائے اور حیران کرے۔ اِن نایاب چیزوں میں صرف زیورات، شوپیس یا نوادرات ہی شامل نہیں ہُوا کرتے تھے، مگر فطری طور پر بھی عجیب و غریب چیزیں، مارے ہوئے جانداروں کی بگڑی ہوئی صُورتیں، عجیب پودے، پَھل، ”فاسلز“ وغیرہ بھی اس کلیکشن میں شامل ہوا کرتے تھے اور آج بھی ہوتے ہیں۔

قدیم زمانوں میں ایسی چیزوں (نوادرات) کو یا تو خاص مواقع پر عام لوگوں یا عوام کے مخصُوص حلقوں کو دکھانے کے لئے نمائش کے لئے پیش کیا جاتا تھا، یا پھر مُختلف بادشاہ، اُمراء، وُزراء، سلاطین، سلطنتیں یا پھر شکشا کے ادارے اپنے پاس ایک آدھا کمرا اس کلیکشن کی نمائش کے لئے مُختص کر دیتے تھے، جس میں وہ سامان رکھا رہے اور جس کو دیکھنا ہو، وہ مُقرر کردہ دنوں اور اوقات کے دوران اُسے آ کر دیکھ سکے۔

جب ہم جدید عجائب گھروں کے ذکر پر آتے ہیں، تو برطانیہ میں لندن کے ”ایشمولین عجائب گھر“ کو دنیا کے اُن ابتدائی ترین میُوزیمس میں گِنا جاتا ہے، جو جدید طرزِ عجائب گھر کی مثال تھے۔ اس میُوزیم نے 17 ویں صدی کے وسط سے تھوڑا بعد میں سال 1677 ء میں ”کیبینٹ آف کیوروسٹیز“ سے نوادرات کی پہلی کھیپ وصُول کرکے، اس کو عوام کے لئے نمائش کے لئے پیش کیا، اور یوں عام لوگوں کو نوادرات کی صُورت میں ماضی کے جھروکوں سے جھانکنے کا موقع فراہم کرنے کا آغاز ہوا۔

اس کے اگلے برس، یعنی 1678 ء میں اس کلیکشن کو باضابطہ طور پر ایک عمارت میں رکھ کر عوام تک پہنچانے کے خیال سے میُوزیم کی عمارت کی تعیر کا آغاز ہوا، جو 5 برس جاری رہنے کے بعد 1683 ء میں مکمّل ہوئی۔ اس عجائب گھر کو دنیا کا سب سے پہلا یونیورسٹی میُوزیم مانا جاتا ہے۔ بعد ازاں اٹلی، ہمیں جدید میُوزیمس کی باضابطہ طور پر بُنیادیں رکھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے، جہاں ابتدائی میُوزیم یورپ کے حیاتِ نو کے دور میں عوام کے لئے قائم ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، مگر ابتدائی جدید میُوزیمس کا قیام، تواتر کے ساتھ 18 ویں صدی میں ہُوا۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2