رواں مالی سال میں معیشت کے اہم اشاریوں میں ناکامی


رواں مالی سال میں پاکستان کی معیشت اہم معاشی اشاریوں میں کمی کا شکار رہی۔ جی ڈی پی نمو، / فی کس آمدنی کم، روپے کی قدر میں کمی، اسٹاک مارکیٹ کریش، ترسیلات زر میں اوسط اضافہ ہوا۔ تفصیلات کے مطابق، درآمدات میں کمی کے ذریعے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کرنے کے سوا رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی معیشت دیگر تمام اہم معاشی اشاریوں میں کمی کا شکار رہی۔ مجموعی جی ڈی پی نمو کے لحاظ سے اہم معاشی اشاریوں میں کاکردگی بری رہی۔

ترسیلات زر میں بھی اوسط اضافہ ہوا۔ سب سے اہم اور بنیادی معاشی اشاریہ ملک کی اصل جی ڈی پی نمو ہے۔ حکومت جی ڈی پی نمو کے ہدف کو حاصل کرنے میں ناکام رہی کیوں کہ 2018۔ 19 میں اس کا ہدف 6 اعشاریہ 2 فیصد مقرر کیا گیا تھا، تاہم اس کا ضمنی تخمینہ 3 اعشاریہ 29 فیصد حاصل کیا گیا۔ ترقی کے اہم ذرائع ذراعت، مینوفیکچرنگ اور تعمیراتی شعبے نے رواں سال اچھی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔

تعمیرات کے شعبے میں سال 2018۔19 کے دوران منفی نمو 7 اعشاریہ 57 فیصد رہی۔ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ زرعی شعبہ جو کہ قومی معیشت میں 19 فیصد تک حصہ دیتا ہے اس میں صرف اعشاریہ 85 فیصد اضافہ ہوا، جس میں اہم فصلوں کی منفی نمو ہوئی۔ مینوفیکچرنگ میں بھی مالی سال 2018۔ 19 کے دوران 2 اعشاریہ 06 فیصد کی منفی نمو ہوئی۔ پاکستان کی فی کس آمدنی کم ہوکر 8 اعشاریہ 23 فیصد پر آگئی جو کہ رواں مالی سال کے دوران 1516 ڈالر ہوگئی، جب کہ گزشتہ مالی سال کے دوران یہ 1652 ڈالر تھی۔

اس کی بنیادی وجہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی تھی۔ رواں مالی سال میں فی کس آمدنی اور ڈالرز میں قومی معیشت کا حجم بھی گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں کم ہوا ہے۔ جی ڈی پی شرح میں سرمایہ کاری میں بھی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ 17 اعشاریہ 2 فیصد کے مطلوبہ ہدف کے مقابلے میں 15 اعشاریہ 4 فیصد رہا ہے۔ مالی سال 2018۔ 19 میں جی ڈی پی شرح پر بچت 11 اعشاریہ 1 فیصد رہی، جب کہ مطلوبہ ہدف جی ڈی پی کا 13 اعشاریہ 1 فیصد تھا۔

جب کہ گزشتہ مالی سال کے دوران جی ڈی پی شرح پر بچت 10 اعشاریہ 4 فیصدرہی تھی۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں جاری کھاتے کا خسارہ 30 فیصد کم ہوا ہے۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ جاری کھاتے کا خسارہ 19 ارب ڈالر سے کم ہوکر 12 اعشاریہ 5 ارب ڈالرز سے کچھ زیادہ ہوجائے گا۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں سے حاصل ہونے والے ترسیلات زر میں 8 اعشاریہ 74 فیصد اضافہ ہوا ہے اور یہ 2018۔ 19 کے ابتدائی 9 ماہ کے دوران 16 اعشاریہ 096 ارب ڈالرز رہے، جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ 14 اعشاریہ 802 ارب ڈالرز تھے۔

جب کہ رواں مالی سال میں جولائی تا اپریل کی مدت میں تجارتی خسارہ بھی کم ہوکر 26 اعشاریہ 3 ارب ڈالرز رہا، جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ 30 اعشاریہ 17 ارب ڈالرز تھا۔ درآمدی بل بھی کم ہوکر 45 اعشاریہ 47 ارب ڈالرز رہا، جب کہ گزشتہ مالی سال کی اسی مدت میں یہ 49 اعشاریہ 36 ارب ڈالرز رہا تھا۔ مالی سال 2018۔ 19 میں جولائی تا اپریل برآمدات 19 اعشاریہ 17 ارب ڈالرز رہی، جب کہ گزشتہ مالی سال میں اسی مدت کے دوران یہ 19 اعشاریہ 19 ارب ڈالرز رہی تھی۔

بجٹ خسارے کے حوالے سے حکومت نے اب تک تیسری سہ ماہی کے مالیاتی آپریشن کے اعداد وشمار جاری نہیں کیے ہیں۔ تاہم بجٹ خسارہ یقینی طور پر جی ڈی پی کے 4 فیصد سے بڑھ چکا ہے اور یہ 4 اعشاریہ 1 فیصد سے 4 اعشاریہ 2 فیصد تک ہے۔ اب یہ پاکستان کی تاریخ کی بلندی کو چھونے جارہا ہے کیوں کہ یہ 29 کھرب روپے یعنی جی ڈی پی کے 7 اعشاریہ 6 فیصد تک پہنچ رہا ہے۔ رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں ایف بی آر کو 345 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے۔

شرح سود میں اضافے کی وجہ سے قرضوں کی سہولت میں بھی اضافہ ہوچکا ہے۔ قرضوں میں بھی اضافہ ہوا ہے کیوں کہ حکومت نے رواں مالی سال کے دوران اپنی مالی ضروریات پوری کرنے کے لیے 36 کھرب روپے کا قرضہ لیا ہے۔ غیر ملکی قرضے اور واجبات پہلے ہی 105 ارب ڈالرز تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان میں غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری 51 اعشاریہ 4 فیصد کم ہوئی ہے اور یہ رواں مالی سال کے ابتدائی 9 ماہ میں 1 اعشاریہ 273 ارب ڈالرز پر پہنچ گئی ہے، جب کہ گزشتہ مالی سال میں یہ 2 اعشاریہ 621 ارب ڈالرز پر تھی۔ جب کہ گزشتہ 10 ماہ کے دوران اسٹاک مارکیٹ 54000 پوائنٹس سے کم ہوکر 33165 پر آگئی۔ جب کہ گزشتہ 9 ماہ کے دوران ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی بڑی کمی واقع ہوئی ہے اور ایک ڈالر کی قیمت 122 روپے سے بڑھ کر 151 روپے پر پہنچ چکی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).