آپ قمر زمان کائرہ کو ان کے بیٹے کے کار حادثے کی خبر کس طرح دیتے؟


تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ دیکھنے والے کی مرضی ہے کہ وہ کون سا رُخ دیکھتا ہے اور پھر اس سے کیا نتیجہ اخذ کرتا ہے۔ دو روز قبل قمر زمان کائرہ کا نوجوان بیٹا ایک کارحادثے میں ہلاک ہو گیا۔ کائرہ صاحب کو یہ اطلاع ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک رپورٹر کے ذریعے ملی۔ رپورٹر بھرے مجمع میں کائرہ صاحب کو کار حادثے کی اطلاع دیتا ہے۔ ہمارے گھر والوں کو کبھی کسی حادثے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے، یہ سوچ بھی کبھی ہماری سوچ میں نہیں آتی۔ کائرہ صاحب بھی ششدر کھڑے رپورٹر کو دیکھتے رہتے ہیں۔ سب کو شکریہ کہتے ہیں اور واپس پلٹ جاتے ہیں۔

اس واقعے نے صحافتی اخلاقیات پر ایک بحث چھیڑ دی ہے۔ رپورٹر نے جس سنگ دلی سے کائرہ صاحب کو خبر سنائی وہ قابلِ مذمت ہے لیکن ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ اس تصویر کا دوسرا رُخ ایک صحافی سبوخ سید اپنی ایک فیس بک ویڈیو میں بتا رہے ہیں۔ سبوخ سید کی ویڈیو کے مطابق، کائرہ صاحب کے بیٹے کی ایک کار حادثے میں وفات کی اطلاع ایک پرائیویٹ چینل کو موصول ہوئی۔ چینل نے خبر کی مزید تصدیق آنے تک اسے چلانے سے انکار کر دیا۔ اس چینل کا ایک ٹیکنیشئین کائرہ صاحب کی پریس کانفرنس میں موجود تھا۔ اس نے کائرہ صاحب سے کہا کہ وہ ان سے کچھ بات کرنا چاہتا ہے۔ کائرہ صاحب کانفرنس کی طرف متوجہ تھے، اسے ٹال گئے۔ ٹیکنیشئین نے یہ خبر ایک دوسرے چینل کے رپورٹر کو بتائی جس نے پورے مجمع میں کائرہ صاحب کو ان کے بیٹے کے کار حادثے کی اطلاع دی۔

صحافی کی یہ حرکت کتنی ٹھیک تھی اور کتنی غلط، اس پر بحث جاری ہے لیکن کیا اس بحث کا کوئی نتیجہ نکلے گا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ صحافیوں کی ایک بڑی تعداد بنیادی تعلیم یا ٹریننگ سے محروم ہے۔ ان کا کام کسی بھی طرح مالک کو پیسہ کما کر دینا ہے جو یہ ہر وقت کرتے رہتے ہیں۔ سب سے پہلے خبر کے چکر میں یہ اخلاقیات کی دھجیاں اڑائے چلے جاتے ہیں۔ خبروں کی سرخیاں، تصاویر اور سوشل میڈیا پر تشہیر کچھ اس انداز میں ہوتی ہے کہ خبر کا اصل مقصد فوت ہو جاتا ہے۔ نیوز روم میں باقاعدہ بحث ہو رہی ہوتی ہے کہ خبر کو کس طرح مصالحے دار بنایا جائے۔

صحافت ایک ایسا میدان ہے جس میں مسلسل آن جاب ٹریننگ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ موجودہ دور کے چیلنجز سے خوش اسلوبی کے ساتھ نمٹا جا سکے۔ اسی کیس کو ہی دیکھ لیجئیے۔ اگر آپ ایک پریس کانفرنس میں ہوں اور آپ کو اسی سیاستدان کے بیٹے کی موت کی خبر موصول ہو، چینل کا اصرار ہو کہ خبر کی تصدیق کرو۔ آپ اس صورت میں کیا کریں گے؟

کیا آپ سیاستدان کو ٹوک کر یہ خبر سنائیں گے؟ کیا آپ سیاستدان کو بیچ پریس کانفرنس میں سب کچھ چھوڑ کر ایک طرف آنے کا کہیں گے؟ کیا آپ ان کے کسی ساتھی کو جا کر خبر بتائیں گے اور درخواست کریں گے کہ وہ سیاستدان کو یہ خبر سنا دیں یا کوئی اور طریقہ اختیار کریں گے؟

اس معاملے پر بھی بحث ضروری ہے۔ میڈیا ہائوسز کے لیے لازم ہونا چاہئیے کہ وہ ہر چھ ماہ میں میڈیا ایتھکس پر دو ٹریننگز اپنے سٹاف کے لیے منعقد کروائے جس میں انہیں بنیادی ایتھکس، ان کی حدود اور ان کو اپنے کام کے دوران پیش آنے والے مسائل کا حل بتایا جائے۔ یہ ایک سست رفتار عمل ہے۔ اس کے نتائج اتنی جلدی نہیں ملیں گے مگر اس سے ادارے کی ساکھ مضبوط ہوگی اور صحافت میں یہی سب سے اہم ہے۔

قمر زمان کائرہ جس دکھ میں ہیں، اس کا تصور ہی محال ہے۔ انہیں اب اپنی توجہ سڑکوں پر ہونے والے حادثات کو کم کرنے اور میڈیا میں حساسیت بیدار کرنے کی طرف مبذول کرنی چاہئیے۔ گذشتہ برس ملک بھر میں چھتیس ہزار لوگ سڑک پر ہونے والے مختلف حادثات میں موت کا شکار ہوئے۔ میڈیا کی وجہ سے روزانہ کئی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ قندیل بلوچ اس کی ایک مثال ہیں۔

سڑک پر خود کو کیسے محفوظ بنایا جائے، متعلقہ اداروں کی کارکدگی اور گاڑیوں کی باقاعدہ جانچ پر ہی تھوڑا بہت کام ہو جائے تو ہم ہر سال سینکڑوں جانیں بچا سکتے ہیں۔ دوسری طرف میڈیا کی حساسیت کے لیے باقائدہ ٹریننگز ہونی لازمی ہیں۔ اس کے لیے میڈیا ہائوسز کا رابطہ ایسے ماہرین سے کروایا جا سکتا ہے جو میڈیا سٹڈیز پر عبور رکھتے ہوں، ملکی ثقافت کے ہر پہلو سے واقف ہوں اور صحافت میں بھی کافی کام کر چکے ہوں۔ یہ کام اتنا مشکل نہیں ہے بس تھوڑی سی نیت، کچھ رابطے اور ذرا سی مغز ماری اور ہمیں امید ہے کہ کائرہ صاحب یہ کام بہت اچھے اسلوب سے کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).