امریکہ اور ایران کی جنگ میں کس کا مفاد ہے


امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کی باتیں ‌ ہورہی ہیں۔ آج کے دن میری اور آپ کی طرح‌ کے مختلف شعبوں ‌ سے تعلق رکھنے والے عام شہریوں ‌ کی کیا ذمہ داری بنتی ہے؟ اور ہم اس بارے میں ‌ کیا کرسکتے ہیں؟ دنیا کے تمام ممالک ایک دوسرے سے پیچیدہ تعلق میں ‌ منسلک ہیں۔ اگر ایک جگہ جنگ ہو تو اس سے پورے خطے پر ہی نہیں بلکہ ساری دنیا پر منفی اثر پڑتا ہے۔ جنگ سے فرار ہونے والے افراد سرحدیں ‌ عبور کرکے دوسرے ممالک میں ‌ پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ پڑوسی ممالک کے رہنماؤں کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس سے ان کی عوام پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات بہتر بنانے پر کئی سالوں ‌ سے دونوں ‌ طرف سے کافی لوگ کام کررہے تھے اور صدر اوبامہ کے دور میں ‌ ان ممالک کے درمیان معاہدہ بھی طے پایا۔ ایران نے نیوکلیئر ہتھیار بنانے روک دیے اور آئی اے ای اے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی کے تفصیلی جائزے کے مطابق ایران اپنے معاہدے پر قائم رہا ہے۔

ٹرمپ اس وقت تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ایران کے ساتھ جنگ کا منصوبہ نہیں ‌ ہے۔ عراق کی جنگ سے پہلے بش بھی یہی کہہ رہے تھے۔ انہوں ‌ نے آخر وقت تک یہی تاثر دینے کی کوشش کی کہ جنگ شروع ہونے میں ‌ صدام حسین کی غلطی تھی حالانکہ حقیقت میں ‌ صدام حسین کے پاس اس چناؤ کی طاقت تھی ہی نہیں۔ اس جنگ کا منصوبہ کئی سال پہلے سے بنا ہوا تھا۔ پچھلے دو سالوں سے ٹرمپ کا امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات پر ہر قدم اس بیانیے کے خلاف دکھائی دیتا ہے کہ ان کا ایران سے جنگ کا ارادہ نہیں ہے۔ مئی 2018 میں ‌ ٹرمپ نے 2015 میں ‌ کیے گئے جوہری معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کیا جس میں ‌ پانچ مزید ممالک برطانیہ، فرانس، جین، روس اور جرمنی بھی شامل تھے۔ پچھلے سال نومبر میں ‌ ٹرمپ نے پھر سے ایران پر تجارتی پابندیاں ‌ عائد کردیں جس کی وجہ سے اس ملک کے باشندوں ‌ کی زندگی مزید مشکل ہوئی ہے۔

اس ایڈمنسٹریشن کی ایران کے خلاف دشمنی ٹرمپ کے نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر جان بولٹن کی وجہ سے دکھائی دیتی ہے جو پچھلے بیس سال سے ایران پر حملے کے منصوبے میں ‌ مصروف ہیں۔ ٹرمپ کے سیکرٹری آف اسٹیٹ مائیک پیمپو بھی ایرانی نیوکلئر ڈیل کے ناقد رہے ہیں۔ مسٹر بولٹن نے آج سے دس سال پہلے بھی جارج بش کے سامنے ایران پر حملے کا منصوبہ پیش کیا تھا لیکن وہ اس وقت نظرانداز کردیا گیا تھا۔ 2017 میں ‌ انہوں ‌ نے پیرس میں ‌ ملک بدر ایرانیوں ‌ کے ایک ہزار افراد کے مجمعے کے سامنے تقریر کی کہ امریکہ کہ پالیسی ہے کہ ایران میں ‌ ملا کی رجیم کو الٹ دیا جائے۔ کچھ ایرانی جو انقلاب کے دوران جان بچا کر بھاگے تھے وہ ایران کی مذہبی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور اس کو گرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ آخر میں ‌ مسٹر بولٹن نے کہا کہ 2019 سے پہلے ہم تہران میں ‌ فتح کا جشن منائیں گے۔ یہ وڈیو دیکھنے کے لیے مندرجہ ذیل لنک دیکھیں۔

اس سال کی نو مئی پر کئی خبروں ‌ کے مطابق ڈیفنس سیکریٹری پیٹرک شاناہان نے 120000 امریکی فوجی مڈل ایسٹ میں ‌ بھیجنے کا مشورہ دیا تاکہ اگر ایران جوہری ہتھیاروں ‌ پر کام کرنے کی کوشش کرے تو فوجی مداخلت کی جاسکے۔ ٹرمپ کے قریب ایران مخالف افراد، ان کے ایران کے خلاف خیالات اور امریکی ہوائی، بحری اور زمینی فوج کے مڈل ایسٹ میں ‌ بھیجے جانے سے کسی بھی وقت کسی بھی جھڑپ سے بڑی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

ایران پر پابندیوں ‌ سے وہاں ‌ رہنے والے شہریوں ‌ کی زندگی انتہائی مشکلات کا شکار ہے۔ اس کا اندازہ گاہے بگاہے ہوتا رہتا ہے کیونکہ امریکہ میں ‌ بہت سارے ایرانی رہتے ہیں۔ ان سے بات چیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ کتنے مسائل کا شکار ہیں۔ مثلاً جن ایرانی بچوں ‌ کو ان کے ماں ‌ باپ امریکہ پڑھنے بھیجتے ہیں ان کو پیسے ٹرانسفر کرنا قانونی طور پر مشکل ہے، امریکہ اور ایران کے درمیان سفر کرنا بھی مشکل ہے۔ یہاں ‌ سے ایران جانا ہو تو پہلے یو اے ای جائیں ‌ گے اور وہاں ‌ سے ایران۔

ایران کے اندر صاف ستھری دوائیں ‌ اور آلات ملنا محال ہے۔ نارمن میں ایک ‌ ایرانی فیملی جس کو میں ‌ جانتی ہوں، وہ بہت مشکلوں سے کینسر کی دوا امریکہ سے خرید کر اپنے بھانجے کو بھیجتے تھے۔ ویزوں میں ‌ رکاوٹوں سے کئی ایرانی طلبہ کی زندگی مزید مشکل ہوئی۔ ایک سروے کے مطابق ایرانی پس منظر سے تعلق رکھنے والے افراد امریکہ میں ‌ تعلیمی، سماجی اور معاشی طور پر انڈیا کے بعد دوسرے نمبر پر ہیں جس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ وہ اس ملک کی ریڑھ کی ہڈی کا حصہ ہیں۔ ان تجارتی پابندیوں ‌ سے امریکہ پر بھی منفی اثر پڑتا ہے۔

امریکی فوجیوں ‌ نے بھی عراق اور افغانستان کی جنگوں ‌ میں ‌ بھاری قیمت ادا کی ہے۔ ویت نام کی جنگ 20 سال جاری رہی تھی اور اس میں ‌ 55 ہزار امریکی فوجی مرے تھے۔ ان کی اوسط عمر 18 سال تھی۔ ان فوجیوں ‌ کے انٹرویو سنیں ‌ تو ان کو معلوم بھی نہیں ‌ تھا کہ وہ کیوں ‌ جنگ کررہے ہیں۔ اکثر نے جواب دیا کہ ہم امریکہ کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ حالانکہ امریکہ تو پہلے سے آزاد تھا۔ اتنی دور جاکر بم گرانے، گولیاں ‌ چلانے اور ایک دوسرے کی جان لے کر کس طرح‌ وہ امریکہ کو آزاد کرارہے تھے؟ جو بچ کھچ کر واپس بھی آگئے تھے تو وہ ذہنی مریض بن گئے۔ پچھتر سال کی عمر کے ”جو“ میرے ایک اچھے دوست ہیں۔ وہ صوفے میں ‌ بیٹھ کر اور جوتے پہن کر سوتے ہیں اور صبح دو بجے اٹھ جاتے ہیں کیونکہ ویت نام میں ‌ اس وقت زیادہ حملے ہوتے تھے۔

اس بات سے انکار نہیں کہ مذہبی حکومتیں اقلیتوں اور خواتین کے حقوق سلب کرتی ہیں۔ اور ایران میں ‌ بھی ایسا ہوا ہے۔ انقلاب کے بعد کافی بہائی ملک چھوڑ‌گئے، کافی بے گناہ بہائی مرد اور خواتین کو پھانسی دی گئی حالانکہ بہائی ہونا کوئی جرم نہیں ‌ ہے۔ دنیا میں ‌ایسی سخت گیر اسلامی حکومتوں کی نا انصافی اور بعض اسلامی معاشروں‌ کی تنگ نظری سے گھبرا کر مذہب چھوڑنے والے افراد کی تعداد میں ‌ ہر روز اضافہ ہورہا ہے۔ یہ لمحہ ان افراد کے لیے بھی سوچنے کا موقع ہے۔

کبھی کبھار مظلوم بھی ظالم سے بدلہ لینے کی کوشش میں ‌ بیرونی عوامل کے ہاتھوں ‌ استعمال ہوجاتا ہے۔ جان بولٹن جیسے افراد کو سابقہ مسلمانوں سے، اپنی جان بچا کر بھاگتے ہوئے ہم جنس پسند افراد سے یا سعودی عرب کی مقید زندگی سے مفرور خواتین سے کچھ ہمدردی نہیں ہے۔ وہ صرف امریکہ کو دنیا کی سب سے بڑی طاقت رکھنے میں ‌ دلچسپی رکھتے ہیں۔ ذہنی انقلاب باہر سے مسلط نہیں کیا جاسکتا ہے۔ عوام کو خود ہی وقت کے ساتھ اپنے لیے بہتر حکومت چننی ہوگی۔ باہر سے حکومت گرانے سے شدت پسندی میں ‌ اضافہ ہوتا ہے اورعام شہری کی زندگی مزید مشکل ہوجاتی ہے۔ جو لوگ انسانی حقوق کے لیے لڑائی کررہے ہیں ان کو بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق کی لڑائی کو طاقتور دشمن اپنے مقصد کے لیے بھی ہائی جیک کرلیتے ہیں۔

سعودی عرب اور ایران کی دشمنی کی بنیاد تیل کی صنعت پر ہے۔ سعودی عرب اور ایران کو ڈپلومیٹک تعلقات بنانے پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ مسلمان اکثریت رکھنے والے اکثر ممالک پسماندہ ہیں اور ان کی آبادی کے بڑے حصے غیر تعلیم یافتہ ہیں۔ سعودی عرب اور ایران کی طرف داری کرنے والے افراد ان تنازعات میں ‌ شعیہ سنی لائنوں پر بھی تقسیم ہوجاتے ہیں۔ اس تقسیم پر قتل و غارت گری بھی کئی صدیوں سے جاری ہے۔ 1947 میں ‌ ہندوستان کی تقسیم کے دوران اس خطے کے عوام نے مذہب کی بنیاد پر ایک دوسرے کے گلے کاٹے۔

ایسا پھر سے ہوسکتا ہے۔ اس لیے معاشرے کے باشعور افراد پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے الفاظ اور اقدام سے اس تفرقے کو ہوا نہ دیں۔ کافی تحقیق بتاتی ہے کہ دنیا کے مختلف ممالک کے عوام جتنے زیادہ تعلیم یافتہ، ذہین اور معاشی لحاظ سے مضبوط ہوں ان میں ‌ مذہبیت اتنی ہی کم ہوتی ہے۔ امن قائم رکھنے، تعلیم اور صحت کے شعبوں ‌ میں ‌ ترقی کرنے اور اپنے پڑوسیوں ‌ سے ڈپلومیٹک تعلقات رکھنے میں ‌ ہی تمام ممالک کی بھلائی ہے۔ اس لیے اپنے لیڈروں پر زور ڈالیں ‌ کہ وہ اقوام متحدہ میں ‌ اس جنگ کے خلاف بیان دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).