مئی، رمضان اور امتحان


کراچی میں انٹر آرٹس (پرائیویٹ اور ریگولر) کے امتحانات تیرہ مئی سے شروع ہوئے ہیں۔ اور گزشتہ دو تین برسوں سے ایسا اتفاق ہورہا ہے کہ رمضان بھی مئی کے مہینے میں آتے ہیں اور انٹر آرٹس کے امتحانات بھی۔ مئی کا مہینہ سال کے گرم ترین مہینوں میں شمار ہوتا ہے بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ سال کا سب سے گرم مہینہ یہ ہی ہے۔ مئی کے دنوں میں یا تو شدت کا حبس ہوتا ہے یا پھر تپتی ہوئی ایسی لُو چلتی ہے کہ اس کے سبب انسانی جسم بری طرح متاثر ہوسکتا ہے اتنا زیادہ کہ زندگی خطرے میں پڑجاتی ہے۔

اس موسم کی ابتدا میں ہی محکمہ صحت کی طرف سے بار بار عوام کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ کوشش کریں کہ اس سخت گرمی میں باہر نہ نکلیں۔ مئی میں اس قیامت کی گرمی ہوتی ہے کہ کئی افراد اس شدید گرمی کی تاب نہ لاتے ہوئے بہت سخت بیمار ہوکر اسپتال یا پھر موت کی آغوش میں پہنچ جاتے ہیں کراچی کا موسم ہمیشہ سے معتدل رہا ہے لیکن اب کچھ عرصے سے یہاں موسم بہت گرم ہونے لگا ہے اور کراچی کے لوگ اس انتہائی گرم موسم کے عادی نہیں تو جب انھیں اس موسم میں ایسی کڑکتی دھوپ میں نکلنا پڑتا ہے تو ان کی صحت اور زندگی کو خطرات لاحق ہوتے ہیں۔

مئی میں رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ رمضان بھی ہے کہ اس میں جتنی بھی عبادت کی جائے کم ہے اوپر سے امتحان۔ اب بے چارے انٹر آرٹس کے طلبا اس مہینے میں عبادت کریں، امتحان کی تیاری کریں یا موسم کی سختی برداشت کریں؟ کیا امتحانات کا نظام الاوقات ترتیب دینے والوں کو یہ احساس نہیں ہوا کہ اس قیامت خیز گرمی میں طلبا کیسے امتحان دیں گے مانا کہ پیپر صبح میں لئے جاتے ہیں لیکن واپسی تو تپتی دوپہر میں ہوگی نا۔ ایک اور ستم یہ بھی ہے کہ جس دن سی این جی بند ہو اس دن پبلک ٹرانسپورٹ بھی بہت کم چلتی ہے ایک ایک گھنٹے میں ایک بس آتی ہے اور وہ بھی مسافروں سے اس قدر بھری ہوئی ہے کہ پاٶں دھرنے تک کی جگہ نہیں ہوتے طالبعلم تو بس کا ڈنڈا پکڑ کر ایک پاٶں بس کے پائیدان پہ جما کے بھی سفر کرلیتے ہیں لیکن طالبات اس انداز میں سفر نہیں کرسکتیں۔

سب لوگ اتنے صاحبِ حیثیت نہیں ہوتے کہ گاڑی خرید سکیں اور نہ ہی ہر ایک شخص اب رکشہ ٹیکسی سے سفر کرنے کی استطاعت رکھتا ہے کیوں کہ پٹرول کی روز بہ روز بڑھتی قیمتوں نے رکشہ ٹیکسی کے کرایوں کو اتنا بڑھا دیا ہے کہ ایک عام سفید پوش آدمی رکشہ ٹیکسی سے سفر کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا واضح رہے آن لائن ٹیکسی سروس کے کرائے جو کہ شروع میں بہت معقول اور متوسط طبقے کے لئے بھی قابلِ برداشت تھے اب عام رکشہ ٹیکسی کی دیکھا دیکھی وہ بھی آسمان سے باتیں کررہے ہیں۔ زیادہ تر تو ہوتا یہ ہے کہ آن لائن ٹیکسی سروس کی گاڑیاں دستیاب ہی نہیں ہوتیں سو اب یہ اچھی اور بہترین سہولت بھی عام لوگوں کی دسترس میں نہیں رہی۔

چلئے مذکورہ بالا باتوں کو ایک طرف رکھتے ہیں۔ ایک اور پہلُو پہ بات کرتے ہیں۔ ذرا یہ تو سوچیئے کہ انٹر کے طلبا اتنے بھی چھوٹے بچے نہیں ہوتے کہ گرمی دھوپ یا امتحانات کی وجہ سے ان کے والدین انھیں روزہ رکھنے سے منع کردیں۔ اس سطح کے طلبا کی کثیر تعداد روزہ داروں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس تناظر میں اگر صورتِ حال کا تجزیہ کیا جائے تو انٹر کے طلبا کی پریشانیوں اور تکالیف کا صحیح معنوں میں اندازہ ہوگا۔ اب ذرا سوچیئے وہ طلبا جو روزہ بھی رکھتے ہیں اور اس ماہِ مقدس کی برکتوں سے فیض یاب ہونے کی غرض سے دیگر عبادتوں یعنی تراویح، تلاوتِ قرآنِ پاک اور درسِ قرآن کی محفلوں اور اسی قسم کی دیگر مذہبی اجتماعات و محافل میں شریک ہونا چاہتے ہیں کیوں کہ یہ تمام عبادات روحانی تسکین کا ذریعہ ہوتی ہیں وہ امتحان کی تیاری کے دوران عبادات کا وہ اہتمام کس طرح کرسکتے ہیں جو کوئی اور کرسکتا ہے۔

کیا یہ سب باتیں انٹر بورڈ کے ناظمِ امتحانات یا دیگر اربابِ اختیار کے علم میں نہیں یا وہ جان بوجھ کے ان سب باتوں سے انجان بن رہے ہیں؟ امتحانات کا انعقاد اگر ماہِ رمضان کے بعد ہو تو کیا کوئی ہرج ہے؟ کچھ عرصہ قبل بھی تو ایسا ہوچکا ہے کہ انٹر کے امتحانات جُون میں لئے گئے تھے۔ اب بھی اگر ماہِ رمضان گزرنے کے بعد امتحانات لے لئے جاتے تو یہ طلبا کے لئے آسانی ہوتی۔ وہ اس ماہِ مقدس میں خشوع و خضوع سے عبادت کرلیتے اور رمضان ختم ہونے کے بعد اطمینان اور توجہ سے امتحانات کی تیاری بھی کرلیتے۔

یہاں بھی وہ ہی مخصوص پُر رعونت سرکاری رویہ نظر آتا ہے جو ہمیشہ سے ہمارے حُکّام کا وتیرہ رہا ہے کہ اپنی ہی من مانی کرنا ہے اور کبھی کوئی ایسا کام نہیں کرنا کہ عوام کو سہولت اور آسانی ہو۔ امتحانات صرف ایک مہینہ مٶخر کرنے سے کوئی نقصان ہونے کا اندیشہ تو نہیں تھا کہ رمضان کا تقریباً سارا مہینہ ہی امتحانوں میں مصروف کردیا۔ اور یہ ستم شعبہ فنون یعنی آرٹس گروپ کے طلبا پر ہی کیا گیا ہے۔ اوّل تو ویسے ہی اس ملک میں آرٹس کے مضامین اور ان سے حاصل شدہ ڈگری کی کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اوپر سے ان کے ساتھ سلوک بھی سوتیلے بچوں والا کیا جاتا ہے۔

انٹر بورڈ کے اعلیٰ حُکّام سے گُزارش ہے کہ وہ اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر دیکھیں اور یہ بات سوچیں کہ کیا یہ مناسب ہے کہ طلبا کو مشکل میں ڈالا جائے کہ نہ وہ اپنی تعلیم پہ مکمل طور پہ توجہ دے سکیں نہ ہی عبادت دل سے کرپائیں اوپر سے اس شدید گرمی میں امتحان دینے کے لئے جانا اور تپتی ہوئی دوپہر میں واپسی۔ گرمی، رمضان اور امتحان۔ برائے خدا طلبا کو اتنی سخت آزمائش میں نہ ڈالا جائے۔ کچھ تو ان کی آسانی کا بھی خیال رکھا جائے۔ امید ہے اربابِ اختیار ان تمام باتوں کو مدّنظر رکھ کر آئندہ امتحانات کے انعقاد کے لئے مناسب اور موزوں وقت منتخب کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).