خان صاحب اور جھاڑو والی سرکار


تھکے ہارے خان صاحب پسینے سے بھری قمیض اور دھونی کی طرح چلتے ہوئے سانسوں کے ساتھ مسجد میں جا کر سجدے میں گر گئے اور دھاڑیں مار مار رونے لگے

اے میرے اللہ! میں کام کر کر کے تھک گیا، میں نے راتوں کی نیند اور دن کا چین حرام کر لیا تیری اس مملکت کو ٹھیک کرنے میں، میں نے اپنی ساری شہرت اور نیک نامی چولہے میں جھونک دی اس لئے کہ تیری دی اس نعمت جیسی مملکت خدادا میں

امن، انصاف، ایمانداری، صداقت اور لیاقت کو فروغ دے سکوں! میں نے ساری دنیا کی مخالفت اور دشمنی مول لی تا کہ اپنے ملک کے بے بس لوگوں کو اختیارات، طاقت، علم اور شعور دے سکوں مگر دیکھ آج میرا کیا حال ہو چکا۔ میری ساری نیک نییتی، نیک نامی اور ایمانداری کو اس ملک کے لوگوں نے، میرے دشمنوں اور دوستوں جیسے دشمنوں نے خاک میں ملا دیا۔ اب کیا کروں میرے مالک! ”

دھاڑیں مارتے خان صاحب کے کسی نے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ خان صاحب نے گیلی آنکھوں اور بھیگے گالوں کے ساتھ چہرہ اٹھا کر دیکھا تو ایک لال نیلے پیلے اور رنگ برنگے مالاؤں سے بھری گردن گھاس پھونس جیسی داڑھی والے اور مٹی سے اٹے چہرے والے فقیر کو دیکھا!

”بابا! ان مسجدوں کے کنکشن اللہ نے ٹیکس کی عدم ادائیگی کی وجہ سے کاٹ دیے ہیں۔ اب یہاں پر وائی فائی نہیں چلتا تو تیری دعائیں ساتویں عرش پر کیسے پہنچیں گی“؟

اب خان صاحب کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی
”ہیں؟ پھر اب کیا ہو گا؟ سائین جی! آپ کون سرکار ہیں؟ “
”بابا! میں جھاڑو والی سرکار ہوں! “ بابے نے اپنی لمبی جھاڑو آگے کرتے ہوئے پیلے اور آدھ ٹوٹے دانت دکھائے۔
”میں تجھے بتاتا ہوں تیرا کام کیسے ہو گا۔ چل تو میرے ساتھ چل! “

خان صاحب ویسے بھی کئی راتوں کے جگے ہوئے تھے اوپر سے کام کی زیادتی اور ذہنی تھکاوٹ نے عقل و شعور کو گھائل کر رکھا تھا تو اٹھ کر جھاڑو والی سرکار کے پیچھے چل پڑے۔

”یہ اپنا ملک ایک بھٹکا ہوا سیارہ ہے بابا! بلیک ہول میں گرا ہوا! یہاں تیری کتابوں کے کوئی اصول نہیں چلتے! یہاں قدرت کے کچھ اور اصول ہے اور فطرت کے کچھ اور تقاضے! “

خان صاحب کو سبق دیتے دیتے جھاڑو والی سرکار خان صاحب کو اٹھا کر اپنی جھاڑووں سے بھری کوٹھری میں لے گئی۔ پہلے خاطر مدارت کی خاطر ایک جھاڑو خان صاحب کے کپڑوں پر پھیری اوردو بڑے بڑے گلاس دیسی بھنگ کے پلائے اور پھر دو تین لمبی کالی جھاڑو تبرک کے طور پر خان صاحب کی جھولی میں ڈال دیں۔

”بچہ اب دھیان سے سن! جو کہوں گا کرے گا؟ “

”جی سرکار اب تو جو کہے گا کروں گا! “ خان صاحب منمنائے

”تو پھر کل صبح اٹھتے ہی ایک کام کر! صبح کی پہلی کرن کے ساتھ ہی سارے میڈیا ہاؤسز کے رزق میں اضافے کے پرمٹ کاٹ دے۔ ان سب کے چھوٹے چھوٹے بچے اور غریب غریب بیویاں ہیں۔ ان مسکین لوگوں کے رزق میں برکت ڈالے گا تو زندگی میں برکت آئے گی۔ تیرے شہر میں بجلی آئے گی۔ تبھی تو تیرے کچے پکے آنگن میں بھی خوشحالی آئے گی! “

”جو حکم سرکار! “

”اور دوسرا کام یہ کر سارے کرپٹ سیاستدانوں کے پرچے واپس لے لے۔ وہ سب معصوم غریب لوگ ہیں ذرا سی بھول چوک ہو گئی اب اس پر بہت شرمندہ ہیں۔ ان کی گرفتاریوں سے ان کے پیسوں کے لین دین بند ہو چکے ہیں۔ جب سارے پاکستان کا پیسہ اکاؤنٹس میں ہی دبک جائے گا تو کیا معشیت کھڑی ہو گی؟ ان کو ہر جرم سے باعزت رہائی دے تا کہ ان کے چمن کا کاروبار چلے۔ پھر ہی تو روپیہ گھومے گا اور چاندی چمکے گے۔ “

”جی حضور! “ بھنگ تیزی سے اپنے کام دکھا رہی تھی۔

”اور سن یہ سارے لوگ جن کو تو گالیاں نکالتا پھرتا ہے ان کو اٹھوا کے ملک سے باہر پھنکوا دے! خس کم جہاں پاک۔ مرزا یار کو پھرنے کے لئے خالی گلیاں مل جائیں گی۔ “

”جو حکم سائیں! “

جھاڑو والی سرکار نے ایک جھاڑو پھر سے اوپر نیچے لگایا اور کہا
”بس میرا بلونگڑا! ۔ اتنے سے کشت سے تیری ساری مشکل کشائی ہو جائے گی۔ جھاڑو کا جادو سر چڑھ کر بولے گا“۔

”اور سائیں وہ معیشت، وہ اقتصادیات، وہ سب بحران! “
”بچہ۔ تو پہلے ان باتوں پر عمل کر پھر اس کے بعد اگلی بات کرنا! “
”شکریہ سائیں! “

جھاڑو سرکار کے جھاڑو کا سہارا لئے خان صاحب باہر نکلے اور دھیرے دھیرے چلتے وزیراعظم ہاؤس پہنچے۔ اور پہنچتے ہی دھڑام سے بستر پر گر کر سو گئے۔

اگلی صبح خان صاحب نے تاریخی یو ٹرن لے کر پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے کامیاب فیصلے کیے ۔ میڈیا ہاؤسز کے راشن بحال کرنے کے آڈر کے ساتھ ہی پورے ملک کے سپیکروں اور سکرینوں میں ”روک سکو تو روک لو تبدیلی آئی ہے“ کے گانے تواتر سے لال سبز رنگوں کے جھنڈوں کے ساتھ لہلانے لگے۔ عوام ہنستی گاتی سڑکوں پر نکل آئی۔ روتے ہوے اینکرز کے چہروں پر ایک دم فصل بہار امڈ آئی اور ہر چینل سے تاریخی یو ٹرن کی تاریخوں کی بجائے تاریخی کامیابیوں کی خبروں نے جگہ بنا لی۔

چشم فلک نے چپکے چپکے غریب مسکین سیاستدانوں کو جہازوں پر خموشی سے سوار ہوتے ہاتھ ہلاتے دیکھا۔ پیسے کا پہیہ چل پڑا، بازار روشن ہوئے، روپیہ جیل سے نکلا۔

دن ڈھلنے تک سارے سیاسی مگر مچھ ملک کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالنے کا عزم کر کے اپنے صندوقوں کو جہازوں میں لادتے لیجاتے رہے۔ عوام کو انتظار اور سکون، دوستی اور بھائی چارے کی تلقینکرتے رخصت ہوئے۔ جلسے جلوس، افطار پارٹیاں، گرینڈ الائنس سب تتر بتر ہوئے۔ خان صاحب نے سارا دن بستر پر نیند پوری کرتے اور بیگم سے حکایتیں سنتے گزارا۔ وزیر مشیر بھی سکون کے سانس لینے اور فرصتوں راحتوں کے گن گانے لگے۔

رات تک ملک کا خزانہ خالی تھا، عمارتوں کے ساتھ ساتھ اب ملک اور عوام کی بھی بولی لگ چکی تھی۔ ٹماٹروں اور لیموں کی قیمتیں بھی پہلے سے بڑھ چکی تھیں۔ جو پہلے سے ملک کو مہیا تیل اور گیس کے خزانے تھے سب کے سب لٹ چکے تھے۔ مگر پھر بھی ہر چوراہے پر تبدیلی آئی ہے کا گانا گاتے لال اور سبز ملبوسات میں ناچتے تھرکتے جوانوں کا ہجوم تھا۔ ہر چہرہ روشن تھا ہر سکرین پر روشنیوں اور قمقموں کی بھرمار تھی۔ اب کسی بحران کی فکر رہی تھی نہ مہنگائی کا ڈر۔ کیونکہ بچہ جمہورا کی ڈوریاں ہلانے والے اپنے سُر سرگم بدل چکے تھے۔ (یہ ہرزہ سرائی محض دل بہلانے کو کی گئی ہے کاش اس کا حقیقت سے کبھی کوئی تعلق نہ ہو! )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).