مقامی حکمرانی کا نظام


جمہوریت کی حقیقی بنیاد اس کے مقامی حکمرانی کے نظام سے جڑی ہوتی ہے۔ جو سماج مقامی سطح پر جمہوری حکمرانی پر مبنی نظام کو مضبوط نہ بناسکے تو ا س کی اوپر کی سطح پر موجود جمہوری نظام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ عام آدمی کا جمہوریت سے رشتہ اس کے مقامی مسائل کے حل کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ لیکن جب مقامی لوگوں کے مسائل حل ہونے کی بجائے او رزیادہ بگاڑ کا شکار ہوں تو ان کی جمہوریت سے وابستگی او رباہمی عمل یا تعلق بھی کمزور پڑجاتا ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی کمزوری کی داخلی اور خارجی محاذ پر بہت سی مثالیں دیں جاتی ہیں، لیکن اہل سیاست کا ایک بڑا طبقہ جمہوریت، سیاست اور حکمرانی کے نظام کو مقامی نظام حکومت کے ساتھ جوڑ کر دیکھنے کی بجائے خود بھی سیاسی تنہائی کا شکار ہوتا ہے اور دوسروں کو بھی اس میں مبتلا کرتا ہے۔

پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت نے مسلم لیگ ن کے 2013 کے مقامی نظام حکومت کے مقابلے میں ایک نیا مقامی حکومتوں کا نظا م 2019 دو مختلف قوانین کی مدد سے منظور کیا ہے۔ اول لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2019 اور دوئم پنچائت نیبر ہڈ کونسل ایکٹ 2019 ہے۔ اس نے نظام کی حمایت اور مخالفت میں اس وقت بہت کچھ لکھا اور بولا جارہا ہے۔ پاکستان میں کیونکہ سیاسی تقسیم بھی بہت گہری ہے تو بعض دفعہ ہماری اپنی سوچ اور فکر میں بھی سیاسی جھلک نمایاں نظر آتی ہے۔ حکومت کے حامی اس نئے قانون کو ایک بڑا انقلابی اقدام جبکہ حکومتی مخالف طبقہ اسے بدترین نظام کے طو رپر پیش کررہا ہے۔ جو بھی نظام پیش ہوتا ہے اس میں مکمل شفافیت کا ہونا ممکن نہیں ہوتا۔ ہر قانون جہاں کچھ اچھے پہلو رکھتا ہے وہیں اس میں کچھ ایسے نکات بھی ہوتے ہیں جو بحث طلب ہوتے ہیں۔

کسی بھی قانون کی منظور ی پر ہمیں دو طرح سے تنقیدی پہلو وں کو دیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اول حزب اختلاف کی سیاست کا عمل یہاں کسی طور پر مثبت سیاست کا نہیں ہوتا۔ حزب اختلاف کا تنقید کا پہلو جہاں اچھے نکات رکھتا ہوگا وہیں اس میں مخالفت کرنے کی سیاسی جھلک بھی نمایاں طو رپر نظر آتی ہے۔ دوئم وہ طبقہ جو سیاست سے بالاتر ہوکر سیاسی نظام کا جائزہ لیتا ہے اس کی تنقید کا مقصد اصلاح کا پہلو ہوتا ہے اور وہ اس نئے نظام میں ایسے پہلووں کی نشاہدہی کرتا ہے جس کا مقصد اس میں ایسی ترامیم کو متعارف کروانا ہوتا ہے جو پہلے سے موجود قانون میں نئی بہتری کے امکانات کو پیدا کرسکے۔

جمہوریت میں اصلاحات، نئی قانون سازی، ترامیم اور پالیسی میں نئی سوچ اور فکر کو متعارف کروانا ہی عملا جمہوری سیاست کا حسن ہوتاہے۔ یہاں پنجاب کی حکومت کے سربراہ وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار او روزیر قانون و بلدیات راجہ بشارت کو داد دینی ہوگی کہ انہوں نے اس نئے قانون میں اصلاحات کا دروازہ بند نہیں کیا۔ ان کے بقول اب بھی حزب اختلاف یا سول سوسائٹی کوئی بھی ایسی ترمیم پیش کرے گی جو حکومتی سطح پر بھی قابل قبول ہواسے ضرور تسلیم کیا جائے گا۔

پاکستان میں ایوب خان، جنرل ضیا الحق، جنرل مشرف کے فوجی ادوار اور نواز شریف او ربے نظیر بھٹو، آصف زرداری، متحدہ مجلس عمل اور عوامی نیشنل پارٹی کے سیاسی ادوار میں جو بھی مقامی نظام حکومت چلایا گیاوہ ہماری مقامی ضروریات کو پورا نہیں کرسکا۔ فوجی ادوار میں موجود مقامی نظام حکومت ایک فوجی سیاسی بندوبست تھا جس کا مقصد اپنی سیاسی ساکھ کو قائم کرنا تھا۔ جبکہ اس کے برعکس سیاسی او رجمہوری حکمرانوں کی اپنی سیاسی ترجیحات میں مقامی نظام حکومت کبھی بھی بالادست نہیں ہوسکا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ اس ملک میں مقامی نظام حکومت کبھی بھی اپنی سیاسی اہمیت قائم نہیں کرسکا او راس کی ذمہ داری عملی طو رپر سیاست دانوں، سیاسی جماعتوں او ران کی وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی مجرمانہ طرز پر مبنی حکمرانی کے نظام پر عائد ہوتی ہے۔

موجودہ پنجاب میں آنے والا مقامی نظام حکومت کا قانون کچھ اپنی بنیادی غلطیوں کے باوجود ایک اچھا قانون ہے۔ مقامی قانون کا تجزیہ کرتے وقت ہمیں 1973 کے آئین کے دو آئینی نکات یعنی 140۔ Aاور آرٹیکل 32 کو بنیاد بنا کر تجزیہ کرنا ہوگا۔ 1973 کے آئین کے مطابق آئین کی شق 140۔ A صوبائی حکومتوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ نہ صرف صوبہ میں مقامی انتخابات کو یقینی بنائیں بلکہ ان مقامی سطح کے اداروں اور عوامی منتخب نمائندوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات دیے جائیں۔ جبکہ آرٹیکل 32 کے بقول اس میں محروم یا کمزورطبقہ جن میں عورتیں، اقلیتیں، کسان، مزدور اور نوجوانوں کی نمائندگی کو موثر بنانا ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ ہمارے پاس مقامی نظام کا جائزہ لینے کے لیے کوئی قانونی فرئم ورک موجود نہیں درست فکر نہیں ہوگی۔

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ موجودہ قانون 2019 سابقہ مقامی نظام حکومت یا مقامی قانون سے بدتر ہے وہ درست تجزیہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ سابقہ نظام میں مقامی حکومت کے پاس بہت کم اختیارات تھے۔ جس میں ساری طاقت کا مرکز یا تو خود صوبائی حکومت تھی یا بیوروکریسی کو طاقت ور بنا کر نظام کو عملا چلایا گیا۔ مقامی نظام حکومت کے مقابلے میں اتھارٹیوں او رمختلف کمپنیوں کو بنیاد بنا کر مقامی نظام حکومت او راس کے قانون کی سنگین خلاف ورزیاں موجود تھیں۔

اسی طرح مقامی وسائل کو ایم این اے اور ایم پی اے کی مدد سے چلا کر یا ان اداروں کو سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر مفلوج رکھ کر عملا 18 ویں ترمیم کی بھی نفی کی گئی تھی جو صوبائی حکومتوں کو پابند کرتا ہے کہ وہ صوبوں سے ضلعوں او رتحصیلوں تک اختیارات کی منتقلی کو یقینی بنا کر مقامی حکمرانی کو زیادہ شفاف بنائیں۔ ایک مقامی نظام کی موجودگی میں اس سے انحراف کرکے ان پر متبادل نظام کو مسلط کرنا بھی سابقہ دور کا خاصہ تھا۔

جبکہ اس موجود ہ نظام 2019 میں سابقہ نظام کے مقابلے میں کافی اچھی اصلاحات بھی موجود ہیں۔ مثال کے طور پر پہلی بار ملک میں تمام نشستوں پر براہ راست انتخابات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حتی تک کہ چیرمین کا انتخاب بھی اب براہ راست ہوگا جو ماضی میں نہیں ہوتا تھا۔ اس عمل سے ضلع اور تحصیل کی سطح پر کونسلروں کی جو خرید و فروخت ہوتی تھی اس کا بھی خاتمہ ہوگا۔ البتہ حکومت نے ضلع کے مقابلے میں تحصیل کی سطح پر نظام کو قائم کرکے براہ راست انتخاب سے میر کا انتخاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں لوگ اپنی مرضی سے اپنے تحصیل کے سربراہ کا انتخاب لڑیں گے۔

اسی طرح عورتوں، کسانوں، مزدوروں او راقلیتوں کی نشستوں کو بھی براہ راست طریقہ کار کے تحت لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس میں پارٹی لسٹ کے تحت متناسب نمائندگی کا طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے۔ تما م شہری او رمیونسپل فنگشنز بشمول تعلیم کو مقامی نظام کے تحت لایا گیا ہے۔ مقامی سطح پر اداروں کو آزادانہ حیثیت دی گئی ہے او ر ان کی سیلف گورننس کا یونٹ قرار دیا گیا ہے۔ پہلی بار صوبائی فنانس کمیشن میں

ترمیم کی گئی ہے جس کے تحت اب آبادی، علاقہ اور پس ماندگی یا غربت کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم کے ساتھ ساتھ ضلعی یا تحصیل کارکردگی کو بھی بنیاد بنایاجائے گا۔

اہم فیصلہ یہ کیا گیا ہے کہ صوبے کے کل ترقیاتی بجٹ کا 30 فیصد مثال کے طو ر پر جو 2019۔ 20 کا 110 ارب روپے بنتا ہے براہ راست مقامی کونسلز کی مدد سے عوامی فلاح پر خرچ کیے جائیں گے۔ اسی طرح یہ فیصلہ بھی اہم ہے کہ ماضی کے مقابلے میں ایل ڈی اے، ایم ڈی اے، آر ڈی ایکا اختیار مقامی حکومتوں کے حوالے کیا گیا ہے۔ میٹرک تک تعلیم، واسا، پانی، کوڑا کرکٹ اور صفائی کا نظام بھی مقامی نظام کے تحت کیا گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پنچائت اور نیبر ہڈ کونسل کی سطح پر 22000 کونسلوں کی تشکیل جو براہ راست طریقہ انتخاب سے ہوگی جس میں یونٹ کو آبادی کی بنیاد پر چھوٹا بنایا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ سابقہ دور میں 25000 کی آبادی پر مشتمل یونین کونسل کی بجائے 3500 افراد پر چھوٹے یونٹ کا قیام شامل ہے۔

اگرچہ بہت سے لوگ براہ راست میئر یا چیرمین یا کنوئینرکے انتخاب کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں او ران کے بقول اتنے بڑے شہر کا براہ راست انتخاب میں بے تحاشا دولت کا استعمال ہوگا۔ لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ اگر میئر یا چیرمین براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوگا تو اس کی زیادہ نظام پر گرفت ہوگی او روہ لوگوں کو جوابدہ بھی ہوگا۔ مثال کے طور پر سابقہ نظام میں بہت سے میئر جو منتخب ہوئے تھے وہ زیادہ تر مزدورکی مخصوص نشستوں پرمنتخب ہوئے تھے جو واقعی بڑی زیادتی تھی۔ جبکہ اس نظام میں مزدور او رکسان کی نشستوں کا طریقہ کار زیادہ شفاف انداز میں موجود ہے۔ ) جاری ہے (


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).