غلامی در غلامی


شیخ سعدی بیان کرتے ہیں کچھ عرصہ میرا قیام دمشق میں رہا۔ ایک دفعہ اہلِ دمشق سے تنگ آ کر فلسطین کے بیابانِ قدس میں ترکِ دنیا کر کے بیٹھ رہا۔ وہاں کے عیسائیوں نے مجھے قید کر لیا اور یہودی قیدیوں کے ساتھ طرابلس کی خندق کھودنے پر لگا دیا۔ مدت بعد حلب کے ایک رئیس آدمی کا وہاں سے گزر ہوا جو میرا جاننے والا تھا۔ اس نے مجھے پوچھا کے یہ تو نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے۔ میں نے کہا کچھ نہ پوچھ انسانوں سے تنگ آ کر پہاڑوں اور جنگلوں کی طرف بھاگا کے عبادت کی یکسوئی میسر آئے اور دیکھ لے میرا حال تیرے سامنے ہے۔

رئیس کو میری حالت پر رحم آیا اور اور اس نے دس دینار اد ا کر کے فرنگیوں سے مجھے آزادی دلائی۔ وہ مجھے اپنے ساتھ حلب لے آیا اور سو دینار مہر پر اپنی بیٹی کے ساتھ میری شادی کر دی۔ کچھ عرصہ گزرا تو بیوی نے بدمزاجی اور زبان درازی سے میری زندگی حرام کردی۔ ایک بار اس نے طعنہ دیا کے تو وہی نہیں ہے جسے دس دینار دے کر فرنگیوں سے میرے باپ نے چھڑایا تھا؟ میں نے کہا ہاں وہی ہوں جسے تیرے باپ نے دس دینار دے کر فرنگیوں سے چھڑایا تھا اور سو دینار دے کر تیرے ہاتھ گرفتار کرا دیا۔

ہماری داستان بھی کچھ ایسی ہی ہے آج سے بہتر سال پہلے ہمارے حال کا ایک محرم خدا کا نجات دہندہ بن کر آیا ہمیں متحد کیا ہمیں ہماری منزل کی راہ دکھائی اور خود ہمارا رہنما بن کر برطانوی نو آبادیات اور ہندوستانی سیاسیات سے ٹکرا گیا۔ مسلسل جستجو جہدِ مسلسل اورخداداد ذہانت سے ڈٹ کر ہر مخالفت کا مقابلہ کرتا رہا۔ ایک طرف سلطنتِ انگلستان کی صورت میں سامراج تھا تو دوسری طرف اکھنڈ بھارت کا چرچا اور چالاک حریف لیکن اس نے قوم کو متحد رکھا اور سب نے مل کر کسی بھی قیمت پر اپنے مقصد سے کم پر کوئی سمجھوتہ نہ کیا۔

اور اس رہبر نے اسلامی تشخص، اسلامی عملداری اور الگ پہچان کے وعدے کے عوض غاصبوں اور شاطروں کے شکنجے سے ایک ناتواں قوم کو آزادی دلائی اور پاکستان بنا۔ لیکن پھر ہماری نا عاقبت اندیشی نے ہمیں امریکہ کے اتحادی بننے سے ایک نئے سامراج کے چنگل میں پھنسا دیا اور پھر عارضی کامیابیوں اور دورس ناکامیوں کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہی شروع ہوگیا۔ جبکہ ہمارا حریف بھارت جس نے اس وقت کسی بھی بلاک کا حصہ بننے سے انکار کر دیا تھا جنہوں نے اس وقت یہ ارادہ کیا کے ہم اپنی داخلہ اور خارجہ پالیسی کو خود مختار رکھیں گے اور کسی کو اس پر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے اس کے سفر کا بھی آغاز ہواجس کا ذکر یہاں نہیں کیا جائے گا۔

پچھلے ستر سال کی تاریخ گواہ ہے کے اس اتحاد سے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ اتحاد اور دوستی کے اس سفر میں یہاں اپنی کچھ فاش بے وقوفیوں کا تذکرہ ضروری ہے مثلاً اکہتر کی جنگ میں امریکہ کے ہماری مدد کے لئے بھیجے گئے بحری بیڑے کا انتظارجس کا انتظار کرتے کرتے ہم اپنا ایک بازو کٹو ا بیٹھے۔ اس کے بعد پرائی جنگ کو اپنی جنگ سمجھ کر دو بڑے ہاتھیوں کی لڑائی میں سونڈ میں گھسنے والی چیونٹی بن روس کو چت کرنا بھی ہمارا ہی کارنامہ تھا۔

جس کی وجہ سے طاقت کے بگڑے ہوئے توازن نے نہ صرف پوری دنیا کو متاثر کیا ہے بلکہ امریکہ کی طاقت کے نشے نے پوری دنیا کو یہ بھی باور کرادیا ہے کے ہر سیر پر سوا نہ سہی ایک سیر کا ہونا ضروری ہے۔ تیسری اور شاید آخری بڑی غلطی وار آن ٹیرر یعنی دہشت گردی کی جنگ میں دوبارہ امریکہ کے لئے کندھا بننا۔ ایک ایسی جنگ جس کی ابتدا ہی آج تک متنازع ہے مثلاً ورلڈ ٹریڈ سنٹر جیسی عمارت جو کے زائد المعیاد ہونے کے قریب تھی کا حملوں کی پیشگی وارننگ کے باوجود صرف دو جہازوں کے ٹکرانے سے زمین بوس ہوجانا حتیٰ کہ اس میں موجود فولاد کا بھی پگھل جانا اور یہودی ملازمین کی غیر موجودگی، ایک گمنام عرب مجاہد کو جو کے ان کے حریف سے لڑ چکا تھا اس کو عالمی ولن کے طور پر پیش کرکے اس کی چھوٹی سی گمنام تنظیم کو پوری دنیا کی سلامتی کے لئے خطرہ بنا کر پیش کرنا وغیرہ۔

یہ جنگ جو شاید جن کے خلاف لڑی گئی تھی ان سے زیادہ ہمارا اپنا نقصان کر گئی۔ لیکن کیا کرتے جزا و سزا کا آپشن دیا گیا تھا کہ ساتھ چلو گے تو سپا نسر کریں گے اور فائدے میں رہو گے نہیں تو تمہیں بھی تورابورا بنا دیں گے۔ اگر ہم یہاں ہوش مندی سے کام لیتے تو شاید ہمارے زمینی حقائق اور تلخیاں اتنی شدید نہ ہوتیں جتنی کے آج ہیں۔ ہماری ستر ہزار جانیں تینتیس ارب ڈالر کا نقصان، وقفے وقفے سے اٹھنے والی دہشت گردی کی لہریں، معاشرتی اورسیاسی عدم استحکام جس کی سزا ہم نے اٹھارہ سال بھگتی اور ابھی تک اس کے اثرات سے نکل نہیں پائے یہ سب اسی ایک غلط فیصلے کا نتیجہ تھے۔

مگر الحمدللہ اب کمبل نے ہمیں یا ہم نے کمبل کو چھوڑ کر اپنے لئے ایک تاریخ ساز اور تاریخ کے دھارے کا رخ موڑنے والا فیصلہ کیا ہے۔ وہ فیصلہ جو آج سے بہتر سال پہلے ہو جانا چاہیے تھا خیر ہوا تو سہی دیر آید درست آید۔ اس کے نتائج تھوڑی دیر سے ہی سہی مگر اپنے ساتھ دورس نتائج لے کر آئیں گے۔ مگر قسمت کی ستم ظریفی یہ ہے کے ہم پھر سو دینار مہر کے عوض آئی ایم ایف کی صورت میں دوبارہ غلام ہونے جا رہے ہیں اللہ رحم کرے کیونکہ لگتا ہے اس بار فیصلہ کرنے سے پہلے استخارہ نہیں کیا گیا تھا یا قرض کی مے ہی ایسی ہے کہ

چھٹتی نہیں ہے ظالم منہ کو لگی ہوئی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).