پشاور کے غیر مسلم روزہ دار اور سکھوں کی افطاری


اگر رمضان کا مطلب صرف بھوک پیاس ہی ہے جس طرح ہمارے ہاں زیادہ ترلوگ سمجھتے ہیں تو پشاور کے کرسچین اگسٹن جیکب کا بھی آج روزہ ہی ہے۔ اور ایسا وہ اپنے مذہب کے مطابق نہیں بلکہ مسلمانوں کی پیروی میں کرتا ہے۔ ایک نجی بنک میں اس کے ساتھیوں کو علم ہے کہ اگر وہ کھاتا پیتا ہے تو اس میں ان کے لئے اچنبھے کی کوئی بات نہیں لیکن جیکب ایسا نہیں کرتا۔

”اچھا نہیں لگتا کہ روزہ دار ساتھیوں کے سامنے کھاؤں پیو، اخلاقی طور پر یہ ٹھیک نہیں لگتا اوردوسرارمضان کا احترام بھی ذہن میں ہوتا ہے“

جیکب کے مطابق دفاتر میں اکثر دوسرے کرسچین ساتھی بھی اسی طرح کرتے ہیں بلکہ ایک دو بندے توغیر ارادی طور پر پورا دن ہی اسی طرح بھوکا پیا سا گزار دیتے ہیں، چونکہ دفتر کے چائے والے کا بھی روزہ ہوتا ہے اس لئے ہم اسے اس حالت میں تکلیف نہیں دینا چاہتے۔

پشاورمیں ہزاروں کی تعداد میں کرسچین سکھ اور ہندو بھی آباد ہیں جن میں اکثرموبائل فون، پنسار، مصالحہ جات کے کاروبار سے وابستہ ہیں، ان کے کاروباری مراکز میں بھی ماہ رمضان کے دوران اسی طرح خود ساختہ روزے کا سماں ہوتا ہے۔ نرمل سنگھ کا تو دعوی ہے کہ وہ باقاعدہ روزہ رکھتا ہے کیونکہ ویسے بھی احترام رمضان میں ساتھی مسلم دکانداروں کے سامنے کچھ کھانا اچھا نہیں لگتا، اور اگرموڈ بن بھی گیا تودن کے وقت سارے تندور اور ہوٹل بند رہتے ہیں اس لئے روزہ ہی رکھنا پڑتا ہے، البتہ اس کی دکان کے ایک نکڑ میں پانی سے بھرا واٹر کولر پتہ دے رہا تھا کہ نظریں بچا کروہ پانی پی لیتا ہے۔

رمضان ویسے تو مسلمانوں کے لئے صبر کا مہینہ ہوتا ہے لیکن اقلیتی براداری بھی تقریبا اسی آزمائش سے گزرتی ہے، اس آزمائش کو انہوں نے مذہبی ہم اہنگی اور رواداری میں تبدیل کرکے بہترین روایت ڈال دی ہے۔ اقلیتی برادری کے لوگ کہتے ہیں ایسا وہ مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے طور پر کرتے ہیں، ان کے ساتھ مذہبی رسومات میں شریک ہوکر خوشی محسوس کرتے ہیں۔

بین المذاہب ہم اہنگی اور بھائی چارے کا ایک اور مظاہرہ ہر رمضان میں اس وقت بھی نظر اتا ہے جب ایک فلاحی ادارے کے تعاون سے پشاور کی سکھ برادری لیڈی ریڈنگ اسپتال میں مسلمانوں کے لئے افطاری کا اہتمام کرتی ہے، سینکڑوں ضرورت مندوں اور راہ گیروں کے لئے دسترخوان بچھا کے ان کو افطاری کرائی جاتی ہے، یہ منظرمذاہب کے درمیان انسانیت کے رشتے کو مضبوط کرنے اور نفرتوں کی دیواریں ڈھانے کے لئے کافی ہوتا ہے۔

This slideshow requires JavaScript.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).