بھئی کیسے بنا لیتے ہو ایسی وکٹیں؟


کرکٹ

کمرشلائزیشن کا ایسا غلغلہ مچا ہے کہ دیگر سپورٹس کے بعد اب کرکٹ نے بھی بھرے گراؤنڈز اور ٹی وی ریٹنگز کو اپنا آبِ حیات سمجھ لیا ہے۔ بلاشبہ گراؤنڈز بھرنے چاہییں اور بے شک ریٹنگز آنا بھی ضروری ہیں۔ مگر کس قیمت پر؟

ارتقأ ہر سماجی مظہر کی ضرورت ہے۔ کھیلوں کو بھی جمود کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔ کرکٹ کا بھی پورا حق ہے کہ وہ دیگر سپورٹس کی طرح اپنے معیارات کو آگے بڑھائے، نئے شائقین کو لائے اور اپنی مارکیٹ وسیع کرے۔

مگر ٹی ٹونٹی کی مقبولیت نے کہیں نہ کہیں ایڈمنسٹریٹرز کے ذہن میں یہ بات ڈال دی ہے کہ شاید مارکیٹ وسیع کرنے کا واحد حل بیٹنگ وکٹیں اور چھکوں چوکوں کی بھرمار ہی ہے۔

ایک طرف آئی پی ایل جیسی لیگز نے بلے بازوں کی بے خوفی میں بے تحاشہ اضافہ کر دیا ہے تو دوسری جانب بولنگ کے معیارات میں ایسی گراوٹ آئی ہے کہ اب ’سیلف ڈیفنس‘ بولرز کی پہلی ترجیح بنتا جا رہا ہے۔

مگر کیا واقعی بولرز کوتاہ ہمت ہو چکے ہیں؟

پچھلے چاروں میچز میں اگر سکور کارڈز کو دیکھا جائے تو خوش قسمت نظر آتے ہیں وہ بولرز جن کا اکانومی ریٹ چھ کے لگ بھگ رہا ہے، وگرنہ فی اوور آٹھ رنز تو اب بولرز کی تقدیر بن چکے ہیں۔

وکٹ یہاں ملتی ہی نہیں ہے۔ بولر لاکھ جتن کر لے مگر جب پچ ہی ایسی ہو کہ ’کُکا برا‘ بھی ٹیپ بال کی طرح بلے پہ آنے لگے تو کوئی کس دیوار سے سر ٹکرائے۔ ستم ظریفی یہ کہ دونوں اینڈز سے نئے گیند کی دستیابی کے بعد مڈل اوورز میں ریورس سوئنگ ویسے ہی عنقا ہو چلی ہے۔

بولر کوئی بھی ہو، گیند کی حالت کچھ بھی ہو، وکٹ صرف اور صرف تب ملتی ہے جب بلے باز خود بہ رضا و رغبت آوٹ ہونا چاہے جو کہ صرف دو ہی صورتوں میں ہوتا ہے کہ یا تو بلے باز تھک جائے یا پھر بہت زیادہ جلدی میں ہو۔

بہرحال یہ عوامل اپنی جگہ، ون ڈے میچز میں مسلسل دسویں شکست یہ ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان کے ڈریسنگ روم میں بھی سب اچھا نہیں ہے۔ بلے باز رنز کرتے ہیں تو بولرز مایوس کرنے لگتے ہیں۔ اور بولرز بھی بھلا کیا جتن کریں کہ جب ایسی مردار وکٹ پہ کوئی بلے باز غلطی کر ہی لیتا ہے تو نجانے فیلڈرز کن آفاقی مسائل کا حل کھوجنے میں مصروف ہوتے ہیں۔

کرکٹ

یہ دلیل بے وزن نہیں ہے کہ محمد عامر اور شاداب خان کی عدم موجودگی کا بوجھ نو آموز بولرز پہ پڑا ہے۔ لیکن یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دستیاب شدہ وسائل کو بھی اگر زیادہ بہتر حکمتِ عملی سے استعمال کیا جاتا تو سیریز کی سکورلائن مختلف ہو سکتی تھی۔

جب دوسرے پاور پلے میں انگلینڈ کی وکٹیں گریں تو سرفراز احمد نے شعیب ملک کے ساتھ فخر زمان کو بولنگ دے دی۔ ایک آدھ اوور کے لیے ایسا رسک بجا بھی ہے مگر ایک پارٹ ٹائمر سے مسلسل چار اوورز کروانا کہاں کی دانش مندی تھی؟

اور یہ سٹریٹیجک حماقت تب اور گھمبیر دکھائی دیتی ہے جب محمد حفیظ باونڈری پہ کھڑے فیلڈنگ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ جب ایک مستند آل راونڈر جس کی شہرت ہی رنز روکنا ہے، اسے گیند تب دیا جائے جب پارٹنرشپ جم چکی ہو تو کیا فائدہ؟

مورگن کے سامنے ایک اینڈ سے شعیب ملک بولنگ کر رہے تھے تو دوسرے اینڈ سے اگر محمد حفیظ آ جاتے تو یوں سہولت سے پارٹنرشپ نہ جمنے پاتی اور شاید ہدف بھی کم رہتا۔

بہرطور خوش آئند بات یہ رہی کہ سرفراز احمد فارم میں واپس آ گئے اور جس ارتکاز سے انھوں نے بیٹنگ کی، امید تھی میچ ختم کر کے ہی لوٹیں گے۔ بس کوتاہی صرف یہ ہو گئی کہ وہ انگلش وکٹ کیپر کو بھی خود سا سمجھ بیٹھے۔ مگر بٹلر بہت تیز نکلے۔

ورلڈ کپ سے پہلے مسلسل دو سیریز کلین سویپ ہونا کوئی اچھا شگون نہیں ہے لیکن پاکستان اور بالخصوص سرفراز کی ٹیم کے لیے اٹھنے کا اس سے اچھا موقع بھی کوئی نہیں ہو سکتا۔ شاید اسی کلین سویپ سے کوئی امید کی کلی پھوٹ نکلے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).