موسم کی طرح تم بھی بدل ہی گئے


ہمارے گویا پیدا ہونے سے پہلے سے یہ بات عام فہم تھی کہ دیہات کے لوگ بڑے طاقتور اور جانٹھے ہوتے ہیں کیونکہ وہ اصلی دودھ، گھی اور مکھن کھاتے ہیں اور پھل اور سبزیاں خود اگاتے اور کھاتے ہیں۔ ہماری دادی اماں، امی کو منع کرتی تھیں کہ بہو بچوں کو ڈبے کا دودھ کبھی نہ دینا۔ شہروں کے بچے ڈبے کا دودھ پی پی کر ڈبہ بن جاتے ہیں۔ جب ہم بڑے ہوئے اور گاؤں گوٹھوں میں جانا ہوا تو ہمارے سامنے تو کچھہ اور ہی انکشافات ہوتے چلے گئے۔

زرد چہرے، عورتوں اور بچوں میں خون کی کمی واضع نظر آ رہی تھی۔ پچیس سالہ عورت، چالیس کی دکھائی دیتی۔ بغیر وقفہ کے ہر سال بچہ پیدا کرنا تو خدا کی دین پر جو جنے وہ پالے کے اصول پر پورا گھراور گھرداری بھی اسی عورت کا ذمہ۔ کھانے کا عالم یہ کہ تین وقت تو کجا دو وقت بھی پورا کھانا میسر نہیں۔ کہیں اس کی وجہ غربت نظر آئی تو بعض جگہ بے جا سستی۔ مل جل کر رہنے میں برکت تو بڑی ہے پر ایک دوسرے کے حسد میں کام بھلا کرے تو کون کرے؟

ناشتے میں روٹی، مکھن، لسی اور ساگ اب زمانہ قدیم کی بات ٹھہری۔ چائے کے پیالے پاپوں کے ساتھ کھا کرہر کوئی خود کو شہری بابو سمجھتا ہے۔ یہاں تک کہ بچوں کے فیڈروں میں بھی ہمیں چائے نظر آئی۔ دوپہرمیں اکثر صرف روٹی ہی پکتی ہے۔ پھر ہر ایک کی مرضی کہ باہر سے پکوڑے لے آئے یا سموسہ یا پھر اچارکے ساتھ گذارا کرے۔ کبھی اگرخاتون خانہ کا موڈ ہوا تو ہو سکتا ہے کہ آلو فرائی مل جائیں ورنہ اپنا اپنا زور بازو آزمانا ہے۔

اک زمانہ ہوتا تھا کہ ہر گھر میں تناور درخت ہوتے تھے جس کی چھاوں میں پورا دن گزر جاتا تھا۔ اوطاق میں تو نیم کا درخت ہونا جیسے لازمی تھا۔ اور اب جیسے جیسے آبادی بڑھتی جارہی ہے، محبتیں گھٹتی جا رہی ہیں، الگ الگ کنبہ کا رواج بڑھتا ہی چلا جارہا ہے تو درختوں کو کاٹ کر مکان پہ مکان بنتے چلے جا رہے ہیں۔ اب تازہ سبزی نہ اگانے سے کوئی خاص شوق ہے اور نہ کھانے سے۔ سبزی کھانا تو اب بعض لوگ اپنی کمتری گردانتے ہیں۔

ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ساگ بنائے کون؟ سہل پسندی اب ہمارا خاصہ بن چکی ہے۔ گوبھی اور ٹینڈے کھانے سے تو اب بڑی آپا، تائی اور چچی کے پیٹ میں درد پڑجاتا ہے۔ عید پر، بکرے کی اضحیٰ میں اس کے سری پاَئے اور مغز تو قصائی کودے دیا جاتا ہے کیونکہ اس کی بو سے ہمارے سر جو چکرانے لگتے ہیں۔ جب نیا نیا ڈالڈا گھی آیا تو نانیوں دادیوں نے اسے بیماری قرار دے کر گھروں میں گھسنے کی اجازت نہیں دی۔ یہ تو اللہ رکھے بہو کے آتے گھر میں ڈالڈا کے بھی قدم پڑے کیونکہ بہو بیگم کو دیسی گھی سے ہیک جو آتی تھی۔

وہ زمانے گئے جب گھر میں دادی اماں مکھن بھی بناتی تھیں اور لسی بھی۔ کیا زمانہ تھا۔ ہر وقت گھر میں دودھ، مکھن، لسی دستیاب ہوتے تھے۔ یہ تو کبھی سوچا ہی نہ تھا کہ دیکھتے دیکھتے ہر چیز کو اس طرح پر لگ جائیں گے۔ اب تو ہماری دادی جان کو مکھن سے اصلی گھی بناتے وقت بھی بہت بو آتی ہے اور وہ اپنا ناک ڈھانپ لیتی ہیں۔ اس وقت بلھے شاہ کے بول یاد آتے ہیں کہ

خالص مکھن دودھ مخانے کتھے گئے
سمے سہانے گیت پرانے کتھے گئے

سوہنے ویلے دلاں دے میلے مک گئے
جہڑے پھل سی ہرے بھرے اج سک گئے

پہلے تو ہم تھوڑا حیران و پریشان ہوئے، افسوس ہوا کہ ہمارے صحتمند گاؤں گوٹھوں کو کس کی نظر کھا گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے جو لوگ دودھ بیچنے کو عار اور اپنی بے عزتی سمجھتے تھے وہ اب اکثر اپنے بچوں کے لئے بھی نہیں رکھ پاتے۔ دودھہ تو بس اب شہروں سے جو مہمان جاتے ہیں، ان کی خاطر تواضع کے لیے منگوایا جاتا ہے۔ بچے ہوں یا بوڑھے، لڑکی ہو یا امید سے کوئی خاتون، دودھہ اب کون پیتا ہے؟ وہ دن ہوا ہوئے جب خلیل خاں فاختہ اڑایا کرتے تھے۔

جن کے گھر گائے اور بھینسیں ہیں وہ بھی اب دودھ پیتے نہیں صرف بیچتے ہیں۔ لگتا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں نے نہ صرف موسم بدل ڈالے، گویا لوگوں کی سوچ اور افکار بھی بدل ڈالے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل جو روایات گاؤں کی ہوا کرتی تھیں اب شہروں کی طرف منتقل ہوگئی ہیں۔ اب گاؤں کے نہیں شہر کے لوگ تازہ سبزی اورپھل کی تلاش میں گھروں کی چھتوں پر سبزیاں اور پھل اگائے جا رہے ہیں۔ اصلی دودھ، دہی اور مکھن کے لے اپنے فارم ہاوسوں پر گائے اور بکری کو پال کر اصلی دودھ کی فراہمی کو یقینی بنا رہے ہیں۔ اب شہر کا بچہ اور عورت، گاؤں کے بچہ اور عورت سے کہیں زیادہ صحتمند اور چاق و چو بند نظر آتا ہے۔

کچھہ ہی عرصہ میں گویا غربت نے یا بڑی غیر ملکی کمپنیوں نے ہمارے گاؤں گوٹھوں کا خاکہ ہی بدل ڈالاہے۔ یہ بات ذہن سمجھنے سے قاصر ہے کہ گاؤں گوٹھوں میں بڑی غیر ملکی کمپنیوں کے آنے سے غربت کم ہوئی ہے کہ بڑھی ہے۔ جو اگاتے پالتے ہیں بیچ ڈالتے ہیں، دودھ، انڈے، مچھلی سب کچھ۔ ۔ اب تو اگلے سال بونے کے لئے بیج بھی نہیں رکھتے، ہائبرڈ پر گذارہ ہے جو زمین کو ہی تباہ کردیتا ہے۔ جو آدھے کو چھوڑ کر پورے کی طرف بھاگے وہ آدھا بھی گنوائے تو پورا بھی۔

قناعت، صبر شکر اور کوالٹی کو برقرار رکھنے جیسی خصوصیات تو جیسے اس نیو لبرل ازم نے سیکھی ہی نہیں۔ اس کا خاصا گویا بھاگم بھاگ، غیر ضروری بھاگم بھاگ اور تعداد اور مقدار کا بڑھاوا ہے۔ پیسے کماتے جاو، صحت کو خدا حافظ کہتے جاؤ اور ماحول کو تباہ کرتے جاؤ۔ امریکا بہادر نے ہمیں یہی تو سکھایا ہے۔ ہر کوئی موسمیاتی تبدیلی کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ جناب موسم کیا تبدیل ہوئے، گویا لوگ ہی بدل گئے۔ ورنہ کیا وجہ تھی کہ ہم اپنے صحتمند گاؤں، غذائی قلت اور موسمیاتی تبدیلی کی نظر کر ڈالتے۔

ویسے شاید ابھی بھی وقت ہے، ہمارے لوگ اگر تھوڑی سی عقلمندی کا مظاہرہ کریں اور وہ جو سمجھتے ہیں کہ مہنگا دودھ بیچنے سے وہ راتوں رات امیر بن جائیں گے تو ان کو تھوڑا قیمت اور فائدہ کا باہمی موازنہ کرتے ہوئے، اپنی، اپنے بچوں اور خاندان کی صحت پر غذائی قلت کی وجہ سے ہونے والے اخراجات کا بھی تھوڑا سا حساب لگا لینا چاہیے اور یہ سمجھنا چاہیے کہ ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔

ہویا ایڈا گھپ ہنیرا کچھ دسدا نئیں
اپنی منزل اپنا ڈیرا دسدا نئیں

سجن بیلی تیرا میرا دسدا نئیں
بتی والا کوئی بنیرا دسدا نئیں

کرماں والے بیبے نیانے کتھے گئے
بھولیاں رسماں سوہنے شہانے کتھے گئے

خالص مکھن دودھ مخانے کتھے گئے
سمے سہانے گیت پرانے کتھے گئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).