فرشتہ ہو یا زینب: یہ سب تمہاری حاکمیت کا تاوان ہے


 یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہو گا

کیوں بلبلاتے ہو تم ؟

کس چیز کا غم ہے ؟

کس لیے اتنا شور مچا رکھا ہے ؟

کچھ بھی تو نیا نہیں ہے

وہی تو ہوا ہے جو صدیوں سے ہو رہا ہے

وہی تو ہے جو منٹو نے برسوں پہلے کھول دیا

کیا نئی بات ہے آخر ؟

ایک اور ننھی کلی مسلی گئی، ایک اور جانباز بازی لے گیا

جب دماغ پہ طاقت کا نشہ سوار ہو، جب معاشرہ ہر وقت سبق پڑھائے مرد آقا ہے، ان داتا ہے، زمین اس کی ہے، آسمان اس کا ہے

جب ہر طرف تعلیم دی جائے کہ اللہ کی طرف سے مرد برتر ہے اور اس کی خدمت کے لیے ایک بےچاری مخلوق پیدا کی گئی ہے جس کو مرد جب چاہے، جہاں چاہے روند سکتا ہے، مسل کے پتی پتی کر سکتا ہے، عمر، رنگ روپ کی کوئی قید نہیں

تو پھر چیخنے چلانے کی بھلا کیا ضرورت، اس سے کچھ بدلے گا تھوڑی۔

کچھ دنوں کا شور اور پھر ایک اور کہانی !

اور آخر وہی تو ہوا ہے، جو تم میں سے ہر کوئی کرتا ہے

کون سا جی دار ایسا ہے معاشرے میں جو ریپ نہیں کرتا !

اس حمام میں سب ننگے ہیں

آؤ ! میں بتاؤں تم کیا کیا ریپ کرتے ہو ؟

جسم کا ریپ تو سب کو نظر آتا ہے، ہر کوئی آسمان سر پہ اٹھا لیتا ہے گر چہ وہ کچھ لمحوں کا کھیل ہے

کیا کبھی غور کیا کیا کہ اس پدرسری معاشرے کا ہر دوسرا مرد ریپ کا مجرم ہے، اور ایسا ریپ جو زندگی بھر جاری رہتا ہے، نہ جینے دیتا ہے اور نہ مرنے۔

عورت صلیب پہ زندگی گزارتی ہے اور اپنے عورت ہونے کا خراج زندگی کے ہر پل میں ادا کرتی ہے، قبر میں اترنے تک !

ذہن کا ریپ کہ سوچنے کی آزادی نہیں، فیصلہ کر نہیں سکتی !

خیالات کا ریپ کہ اظہار کی اجازت نہیں، کیا چاہتی ہے، بتانا ناممکن!

آزادی کا ریپ کہ باہر نکلنا تمہیں پسند نہیں، اسے صرف تمہارے گرد گھومنا ہے پروانہ بن کے اور پھر تمہاری آگ میں جل کے فنا ہونا ہے !

تمناؤں کا ریپ کہ تمہیں اڑتے پرندے اپنی دسترس سے باہر نظر آتے ہیں، اور تمہیں کٹھ پتلی کا ناچ پسند ہے ۔

جذبات کا ریپ کہ تمہیں صرف گونگی عورت چاہئے، زبان ہو اور بات کر سکے، یہ تمہاری حکومت میں کیسے ممکن؟

مالی ریپ کہ عورت کما کے تو لائے مگر اس کا اکاونٹ تمہارے نام ہو، اے ٹی ایم کارڈ کے مالک تم بنو۔ ٹھیک ہے باڑے میں بندھی بھیڑ بکریاں کا فائدہ کیا ہے اور کیا نقصان، مالک ہی سمجھے گا نا! کھونٹے سے بندھی ہوئی کا کیا اختیار ؟

تو اب سمجھ آیا کہ ریپ ہے کیا ؟

ریسرچ بتاتی ہے اس کا جنس سے اور جنسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں !

یہ اختیار کی بھوک ہے، طاقت کی شدید بھوک !

یہ کھیل ہے کمزور اور طاقتور کا، یہ کہانی ہے اپنے اس اندر مچلتی طاقت کی خواہش کو باہر نکالنے کی !

یہ مرد کے تشدد آمیز رجحان کا شاخسانہ ہے، یہ حکومت کرنے اور سامنے آنے والی ہر چیز کو ریزہ ریزہ کرنے کی شدید خواہش ہے۔

اور بدقسمتی سے سامنے آسانی سے شکار ہونے والی اور تمہاری طاقت کے نتیجے میں ٹوٹنے بکھرنے والی ایک مخلوق موجود ہے معاشرے میں، جسے معاشرہ تیار کرتا ہے اپنے ہاتھوں تمہارے قدموں میں بھینٹ چڑھنے کو۔

تو کیا غم ہے آخر ؟

مجھے ہنسی آتی ہے تمہارے احتجاج پہ ؟

کیوں کرتے ہو یہ سب ڈرامہ انصاف کا ؟

ارے انصاف مانگنے والو، پہلے گریبان میں جھانکو اور یہ بتاؤ کہ کبھی عورت کی عزت کی ہے، کبھی یہ جانا ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح گوشت پوست کی بنی ہے، دل دھڑکتا ہے، دماغ راستہ دکھاتا ہے۔ اس کا اس دنیا میں اتنا ہی حق ہے جتنا تمہارا، اسے بھی اسی طرح رنگ، روشنی، ہوا چاہیے جتنا کہ تمہیں۔ وہ بھی ویسے ہی پرواز کرنا چاہتی ہے جیسے کہ تم۔

اور معلوم ہے تمہیں، کیا کرو گے اس سارے احتجاج کے بعد؟

ایک بچی کی جنسی بے حرمتی پہ چیخ چیخ کے جب گھر لوٹو گے تو کیا کرو گے تم؟

تم گھر لوٹو گے اور ایک لونڈی نما بیوی، کنیز نما بہن اور بیٹی پہ جاتے ہی حکم چلاؤ گے، ان کی زندگی کے فیصلے کرو گے، ان پہ روشنی کے روزن مزید بند کرو گے، انہیں صرف جنسی استعمال کے قابل سمجھے جانے والی مخلوق سمجھ کے مزید دیواریں کھڑی کرو گے۔ زبان کاٹ دو گے اگر خواہش کا اظہار ہوا تو۔ زندہ رہنے کے لیے دو وقت کا کھانا اور دو جوڑی لباس چاہیے اور بس۔

جب تک تم ایسا کرتے رہو گے، جب تک تم اپنے بیٹوں کو یہ سبق پڑھاتے رہو گے ۔۔۔

” مرد بن مرد “

“عورت کی کیا مجال کہ اپنی مرضی کا اظہار کرے “

“ارے سالی، زبان چلاتی ہے، دوں گا دو ہاتھ “

“ خبردار اگر عورت کے پیچھے لگا “

اس وقت تک فرشتہ، زینب، عاتکہ اور عائشہ مرتی رہیں گی، آخر انہیں خراج بھی تو دینا ہے نا تمہاری بالادستی کا، طاقت کے نشے کا۔

تو بند کرو اب احتجاج کا ڈرامہ !


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).