میثاق جمہوریت پر عمران خان کا آخری یو ٹرن


دنیا میں بیشتر ممالک کے وزرائے اعظم اور صدور، عوام کے ہیرو اور آئیڈیل اس لئے نہیں ہوتے کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ دیانتداری سے بہتر کارکردگی دکھانا ان کا کام ہے۔ بڑے عہدوں پر براجمان سیاستدان بھی اپنے آپ کو اس سسٹم میں ڈھال لیتے ہیں۔ کوئی بھی دوسرا اہم اور طاقتور ادارہ ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتا۔ ہیرو تو ہمارے سیاستدان ہیں جو اپنی ذمہ داریاں نبھانے، عوام کو ریلیف دینے او ر مخالفت کا نشانہ بنتے ہوئے شہید ہوتے ہیں، جیلیں کاٹتے ہیں، تشدد کا نشانہ بنتے ہیں اور جو بچ جاتے ہیں ذلت و رسوائی ان کے دامن میں ڈال دی جاتی ہے۔

آمریت کی ڈسی ہوئی دونوں بڑی پارٹیوں اور جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دینے والی شہید بے نظیر بھٹو اور اب ووٹ کے تقدس کے لئے جدوجہد کرنے والے نواز شریف کو 14 مئی 2006 ء کو بخوبی ادراک ہو چکا تھا کہ لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی کے تحت ان کی منتخب جمہوری حکومتوں کا دھڑن تختہ صرف اسی لئے کیا جاتا رہا ہے کہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف استعمال کیا گیا۔

تاریخ بتاتی ہے کہ بے نظیر بھٹو اور ان کے شوہر آصف علی زرداری احتساب کے نام پر انتقام کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے جلا وطنی پر مجبور ہوئے، تھوڑے عرصے بعد نواز شریف بھی مکافات عمل کا شکار ہو کر بیرون ملک جانے پر مجبور ہو گئے۔ بے نظیر اور نواز شریف کواپنی غلطیوں کا کفارہ ادا کرتے ہوئے انہوں نے آٹھ صفحات اور 36 نکات پر مشتمل میثاق جمہوریت پر دستخط کیے۔ اس دستاویز کو 1973 ء کے آئین کے بعد مقدس ترین قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس تاریخی دستاویز میں جو کچھ تحریر کیا گیا تھا وہ ان آمرانہ ذہن رکھنے والوں کو ایک آنکھ نہ بھایا۔ کل تک ایک دوسرے کو سیکورٹی رسک اور آمریت کی پیداوار کے طعنے دینے والے ایسے اکٹھے ہوئے کہ اس وقت کے آمر پرویز مشرف سمیت بہت سوں کی نیندیں حرام ہو گئیں۔

میثاق جمہوریت پر دستخط کرنا اپنی موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔ یہی کچھ تو نواز شریف اور محترمہ بے نظیر کے ساتھ ہوا۔ محترمہ بے نظیربھٹو کو انتخابی مہم کے دوران راول پنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کر دیا گیا اور عجب اتفاق دیکھیں کہ اسی دن انتہا پسندوں اور جمہوریت کے دشمنوں نے نواز شریف پر بھی قاتلانہ حملہ کیا، جس میں وہ بال بال بچ تو گئے مگر انہیں ایک پل بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا گیا، یہاں تک کہ ان کی اپنے دور حکومت میں ان پر کرپشن کا اتنا گند ڈالا گیا کہ انہیں وزارت اعظمی کے ساتھ ساتھ سیاست سے دور کر دیا گیا۔ افسوس کہ یہ سب کچھ ایک نوجوانوں کے آئیڈیل اور ہر دل عزیز وزیر اعظم عمران خان کے ہاتھ سے کرایا جا رہا ہے۔ عمران خان کے کان میں بھی ڈال دیا گیا کہ دونوں پارٹیوں کے لیڈر کرپٹ ہیں اور میثاق جمہوریت ایک ڈھونگ ہے۔

اب عمران خان کی حکومت آئے 9 ماہ ہونے کو ہیں۔ عمران خان کرپشن مکاؤ، غربت مکاؤ اور پاکستان کو دنیا میں عزت کا مقام دلانے کے نعرے پر حکومت میں آئے۔ مگر افسوس نہ وہ کرپشن ختم کر سکے، نہ غربت اور نہ ہی پاکستان کو خاطر خواہ عزت دلا سکے کیونکہ 9 ماہ میں ہی ان کے کشکول کے سائز میں ریکارڈ ساز اضافہ ہوا ہے۔ جلد ہی بڑے بڑے دعووں سے عوام کی بندھی امیدوں نے دم توڑنا شروع کر دیا۔ نیب زدہ اپوزیشن نے حکومت کی بد ترین کارکردگی کے نتیجے میں چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کی کال پر اکٹھے ہو کر بھرپور فائدہ اٹھایا۔

زرداری ہاؤس اسلام آباد میں ہونے والے افطار ڈنر میں جمعیت علمائے اسلام (ف) ، عوامی نیشنل پارٹی، مسلم لیگ ن، جماعت اسلامی اور پی ٹی ایم رہنما شریک ہوئے۔ مسلم لیگ ن کے وفد نے شاہد خاقان عباسی کی قیادت میں شرکت کی، وفد کے دیگر ارکان میں مریم نواز، حمزہ شہباز، مریم اورنگزیب اور ایاز صادق شامل تھے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے افطار کے بعد ہونے والے اجلاس میں شرکت کی۔ جماعت اسلامی کا وفد لیاقت بلوچ کی سربراہی میں افطار ڈنر میں شامل ہوا، جب کہ اے این پی کے ایمل ولی خان، زاہد خان اور میاں افتخار حسین، اس کے علاوہ آفتاب احمد خان شیر پاؤ، حاصل بزنجو، جہانزیب جمالدینی، محسن داوڈ اور علی وزیر بھی افطار ڈنر میں شریک تھے۔

اپوزیشن کی بیٹھک میں ملک کی نازک معاشی صورتحال، مہنگائی اور عوام کی مشکلات کے حل میں حکومتی عدم دلچسپی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ تمام پارٹیوں کا اتفاق رائے سے یہ موقف سامنے آیا کہ حکومت ملک چلانے اور عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکی ہے۔ مولانا فضل الرحمان نے عید الفطر کے فوری بعد حکومت مخالف احتجاجی تحریک کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ نا اہل حکمران جو عوام کے نمایندے نہیں، ان کے اقتدار میں آنے سے ملک ایسے گہرے سمندر میں جا پڑا ہے جس کو سنبھالنا ملک کے تمام زعما کا فریضہ ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ہر سیاسی جماعت کا اپنا نظریہ اور منشور ہے، کوئی ایک سیاسی جماعت پاکستان کے مسائل کا حل نہیں نکال سکتی۔ عید کے بعد مولانا فضل الرحمان کی صدارت میں آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا بھی اعلان ہوا جس میں طے پانا باقی ہے کہ احتجاج صرف عمران کو بہتر حکومتی کارکردگی پر مجبور کرے گا یا مولانا فضل الرحمان کے شروع کے موقف پر چلتے ہوئے عمران ہٹاؤ تحریک چلائی جائے گی۔

مسلم لیگ نون کی نائب صدر مریم نواز کے مطابق لیگ اور پیپلز پارٹی دونوں جماعتیں روایتی حریف ہیں لیکن میدان میں مقابلہ بھی کرتے ہیں اور دکھ سکھ میں شامل بھی ہوتے ہیں۔ میثاق جمہوریت کو لے کر آگے بڑھیں گے اور مزید چیزیں شامل کریں گے۔ مریم نواز کا کہنا تھا کہ چارٹر آف ڈیموکریسی ختم نہیں ہوا، اس میں توسیع کریں گے اور میثاق جمہوریت کا یہ فائدہ ہوا کہ دو حکومتوں نے اپنی مدت پوری کی جو کہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے۔

مشترکہ اپوزیشن نے یک جان ہو کر میثاق جمہوریت پر نئے جذبے نئی قوت اور ولولے کے ساتھ عمل پیرا ہونے کا خوش آیند عندیہ دیا ہے۔ عمران خان نے اپوزیشن کی افطار پارٹی پر شدید تنقید کی۔ عمران خان نے حیرت انگیز بیان دیا کہ ”کرپٹ سیاسی مافیا معیشت کے ذریعے بلیک میل کرنا چاہتا ہے، پرانے نظام سے فائدہ اٹھانے والا سیاسی مافیا نئے نظام کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتا ہے“۔ اس کا مطلب ہے کہ عمران خان کی حکومت ہوتے ہوئے نواز شریف جیل کے اندر اور زرداری مقدمے بھگتنے کے باوجود اتنے طاقتور ہیں کہ دونوں پاکستان کی معیشت کونقصان پہنچا رہے ہیں اور ڈالر کو 150 تک لے گئے ہیں۔

عوام کو اس سے غرض نہیں کہ کون کیا کر رہا ہے بلکہ آج عوام کا سب سے بڑا مسئلہ گردن توڑ مہنگائی ہے۔ گیس بجلی ادویات اور روز مرہ ضرورت کی اشیا روز بروز عوام کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ اس سے پہلے کہ عوام تنگ آ کر لیڈر کے بغیر احتجاج کرتے ہوئے انقلاب کے نام پر بے قابو ہو جائیں، اپوزیشن نے تحریک چلانے کاقابل قدر فیصلہ کیا ہے۔

مشترکہ اپوزیشن نے میثاق جمہوریت کو نئی روح بخشی ہے، اب میثاق جمہوریت کو ڈراما اور مک مکا کہنے والے عمران خان کو واضح کرنا چاہیے کہ انہیں سی او ڈی کے کس حصے سے اختلاف ہے؟ وہ ایک پارلیمانی دستور کے تحت چیف ایگزیکٹو کے منصب پر فائز ہوئے ہیں اور میثاق جمہورت پارلیمانی جمہوریت کی بالادستی کا اعلان ہے۔ لگتا ہے وزیر اعظم عمران خان پر بہت جلد ایسا وقت آنے والا ہے کہ جب وہ میثاق جمہوریت کا ایک ایک لفظ دھیان سے پڑھنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

حامد میرکا کہنا تھا کہ ”شبر زیدی، حفیظ شیخ اور گورنر اسٹیٹ بینک باقر رضا تینوں شخصیات کو پاکستان کے حساس اور اہم ترین عہدوں پر لگانے اور موجودہ معاشی ٹیم کی کوششوں کے باوجود اگر پاکستان معاشی بحران سے نہیں نکل سکا تو ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس کی ذمہ داری عمران خان پر اس لئے نہیں ڈال سکتے کیونکہ عمران خان کی نئی اکنامک ٹیم ملٹری لیڈر شپ کے مشورے سے لائی گئی ہے۔ عمران خان اور آئی ایم ایف نے نئی معاشی ٹیم بنائی تو ہے لیکن اس ٹیم کی اپوائنٹ منٹ فوج سے پوچھ کر کی گئی ہے“۔

عید کے بعد اگر معاشی بدحالی اور مہنگائی کو سامنے رکھ کر اپوزیشن مشترکہ احتجاج کے بعد ”عمران ہتاؤ تحریک“ میں کامیاب ہو جاتی ہے تو عمران خان خود بولیں گے کہ اس معاشی بدحالی میں وہ اکیلے ذمہ دار نہیں۔

آج نہیں تو کل عمران خان کو اس حقیقت کو ماننا ہی پڑے گا۔ عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس میں تمام پارٹیاں میثاق جمہوریت کے شکل میں بننے والے مضبوط قلعے کی تعمیر میں اپنے اپنے حصے کی اینٹ رکھیں گے۔ سویلین بالادستی کے لئے عمران خان کے حصے کی اینٹ میثاق جمہوریت کے قلعے کو مستحکم اور مکمل کرنے کے مترادف ہو گی۔ وزیرا عظم عمران خان کے پاس یہی موقع ہے کہ وہ میثاق جمہوریت کا حصہ بن کے جمہوریت دشمن قوتوں کے مندروں میں پڑے بتوں کو پاش پاش کر دیں۔ پاکستان میں اس طرح آنے والے سیاسی استحکام کے بعد کوئی بھی دشمن پاکستان کی ترقی کے راستے میں آنے سے پہلے سو بار سوچے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).