منافرتوں کی سوداگری کب تک؟


داتا دربار خود کش حملے میں چھے پولیس والوں سمیت گیارہ بے گناہ افراد شہید ہوئے ہیں اور 30 کے قریب زخمی ہیں۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تنظیم حزب الاحرار نے قبول کر لی ہے۔ حملہ آور کے متعلق بیان کیا جا رہا ہے کہ اس کی عمر 15 سے 16 سال کے قریب تھی، جس نے ایلیٹ فورس کی گاڑی کے قریب خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ جائے وقوع سے حملہ آور کے جسمانی اعضا بھی مل گئے ہیں۔ اس حوالے سے تحقیقات جاری ہیں۔ امید یہی ہے کہ حسبِ روایت اسے غیر ملکی سازش قرار دیتے ہوئے ملک دشمنی پر مبنی کارروائی قرار دیا جائے گا۔ زیادہ امکان یہی ہے کہ اسے بھارتی سازش قرار دے کے معاملہ نمٹا دیا جائے۔

ہمارا روایتی عمومی بیانیہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی مسلمان ایسی گھناؤنی کارروائی کر ہی نہیں سکتا، کیونکہ اسلام ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتا۔ کتابِ مقدس میں یہ لکھا ہے کہ جس کسی نے کسی ایک بے گناہ انسان کی جان لے اس نے گویا پوری انسانیت کا قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچایا۔ اتنی واضح مقدس ہدایت موجود ہے۔ مہینہ بھی رمضان المبارک کا ہے اور مزار بھی حضرت داتا گنج بخشؒ جیسے عظیم صوفی بزرگ کا، جہاں سیکڑوں لوگ روزانہ روحانی فیض یابی کے لیے حاضری دیتے ہیں۔

ایسے میں بھلا کوئی مسلمان چاہے وہ کتنا ہی گنہگار کیوں نہ ہو ایسی گھناؤنی حرکت کیسے کر سکتا ہے؟ اس کے ساتھ ہی ایک دوسرا بیانیہ بھی ہے وہ یہ کہ اپنے مقدس مشن کی تکمیل کے لیے جانوں پر کھیل جانے کا جو عظیم جذبہ ہماری قوم میں ہے کوئی دوسری قوم ہمارے اس خالص ایمانی جذبے کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسا، مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔ رہ گئی یہ بات کہ مقام کتنا مقدس ہے حضرت داتا سید علی بن عثمان ہجویریؒ کا دربار ہے۔ ایسی مقدس ہستی جس کا احترام مسلمان کیا غیر مسلم بھی کرتے ہیں۔ بلکہ ہمارے اہل تصوف یا صوفیا کرام کا احترام تو ہندو سکھ مسیحی سب بڑھ چڑھ کر کرتے ہیں خود ہندوستان میں ہم نے دیکھا کہ حضرت خواجہ غریب نواز معین الدین چشتیؒ سرکار ہوں یا حضرت نظام الدین اولیاؒ ان کے درباروں پر جس والہانہ عقیدت سے ہندو اور سکھ آتے ہیں اور نذرانے چڑھاتے ہیں، اُسے کسی طرح بھی مسلمانوں سے کم قرار نہیں دیا جا سکتا۔

درویش کی نظر میں دوسروں پر الزامات دھرنے سے قبل جذبہ خود احتسابی کے تحت اپنی صفوں پر بھی ایک تنقیدی نظر ڈال لینی چاہیے۔ ہم مسلمانوں کی بد قسمتی ہے کہ ہم بہت زیادہ فرقہ پرستیوں کا شکار ہو گئے ہیں۔ حالانکہ ہمیں حکم تو یہ دیا گیا تھا کہ سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور فرقوں میں نہ بٹنا مگر افسوس ہم نے جس طرح دیگر بہت سی مقدس ہدایات کو پس پشت ڈال دیا ہے، اسی طرح اتحاد و اتفاق کی بجائے فرقہ پرستی میں اتنی دور نکل گئے کہ ہمارے پڑھے لکھے بظاہر علما کہلانے والے حضرات نے ایک دوسرے پر تکفیر اور گمراہی کے فتاویٰ جاری کرنے میں ذرا نرمی نہیں دکھائی۔ اگر کسی کو اردو بازار میں چھپنے والا مذہبی و دینی لٹریچر پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو تو وہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ہم مسلمانوں کے اندر باہمی نفرتیں اور کدورتیں ان منافرتوں سے بھی زیادہ ہیں، جن کا اظہار ہم غیر مسلموں یا کافروں کے لیے کرتے رہتے ہیں اور یہ سلسلہ کوئی آج پید ا نہیں ہوا اس کے پیچھے چودہ صدیوں کی تاریخ اور تاریخی واقعات کی تفصیلات موجود ہے۔

ہمارے درمیان ایسے حضرات کی موجودگی سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا جو درباروں میں ہونے والی سرگرمیوں پر منفی ردِ عمل کا اظہار کرتے رہتے ہیں اور ایسے بھی ہیں جو درباروں پر حاضری کو ایک طرح سے منفی رنگ میں پیش کرتے ہیں۔

حضرت داتا گنج بخش سرکارؒ کے مزار پر یہ افسوسناک سانحہ پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے اور نہ ہی یہ واحد دربار ہے جس پر اس نوع کی تکلیف دہ واردات کی گئی ہے۔ حضرت بابا فرید شکر گنجؒ اور شاہ شہباز قلندرؒ کے دربار سے لے کر کراچی اور پشاور تک کس کس دربار کانام لیا جائے۔ حضرت شاہ غازیؒ اور حضرت شاہ رحمنؒ کے درباروں میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے اور صرف پاکستان کے اندر ہی نہیں دیگر مسلمان ممالک میں بھی ایسے سانحات کی خبریں عالمی میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔ داعش نے عراق اور شام میں مقدس ترین ہستیوں کے مزارات کو جس بے دردی سے اڑایا، اس سے کون مسلمان بے خبر ہے۔

مسئلہ محض درباروں تک محدود نہیں ہے۔ دوسری فرقوں کی مساجد پر بھی ایسے خوفناک حملے کیے جاتے ہیں۔ غیر مسلموں کی عبادت گاہیں بھی ان ظالموں کے ظلم سے محفوظ نہیں ہیں۔ مندروں اور گرجا گھروں کے متعلق بھی ایسی خبریں سنائی دیتی رہتی ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی ان ستم گروں سے محفوظ نہیں ہیں۔ بالخصوص خیبر پختون خوا میں بچیوں کے سکول جس بے دردی سے اڑائے گئے ہیں۔ ان مثالوں سے اس مائنڈ سیٹ کو سمجھنے میں معاونت ملتی ہے جس کا جذبہ ایمانی منافرتوں سے بھرا پڑا ہے۔

یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ابدی نفرت درجہ بدرجہ آگے بڑھتے ہوئے پوری انسانیت کو اپنی لپیٹ میں لے لینا چاہتی ہے، کیونکہ مارکیٹیں اور پارک تک ان سے محفوظ نہیں ہیں۔ یورپ اور امریکا تک اس مائنڈ سیٹ کی پہنچ ہے۔ 16 دسمبر 2014 کو آرمی پبلک سکول پشاور کے بچوں پر جو قیامت گزری، اُسے کون بھول سکتا ہے۔ اس کے ردِ عمل میں ہمارے طاقت ور اداروں کو اس گھناؤنے کھیل کی سنگینی کا احساس ہوا اور تمام سیاسی پارٹیوں کو یکجا کرتے ہوئے نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا۔ مگر افسوس اس پر عمل درآمد میں وہ عزم مفقود رہا جو اس ایکتا کا باعث بنا تھا۔ آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے اس بربادی کے سہولت کاروں کو سرکاری مہمان نوازی کا رتبہ بخشے رکھا۔

نیشنل ایکشن پلان پر سو فیصد عمل درآمد ہونا چاہیے مگر یہ درویش کچھ بنیادی حقائق پر توجہ مبذول کروانا ضروری سمجھا ہے۔ ان میں سب سے پہلی سچائی تو یہ ہے کہ ریاست لوگوں کے مذہبی معاملات میں ٹانگ اڑانے سے باز آ جائے۔ آپ مذہب کا جس قدر سیاسی استعمال کریں گے، فرقہ پرستی اسی ریشو سے بڑھے گی۔ جس کی پیدا کردہ نفرت، شدت پسندی اور جنونیت سے ہوتی ہوئی، دہشت گردی تک پہنچے گی۔ ریاست مائی باپ بن کر اپنے تمام شہریوں کو بلا امتیاز مذہب و ملت، نسل و جنس ایک نظر سے اپنے بچوں کی طرح دیکھے۔

اس کی جھلک ہمارے آئین میں بھی دکھائی دینی چاہیے اور اس کی پاسداری ہمارے تعلمی نصاب میں بھی بغیر کسی رو رعایت کے کی جانی چاہیے۔ یہاں کوئی مراعات یافتہ خصوصی طبقہ نہیں ہونا چاہیے۔ وردی والا نہ سویلین اور نہ جبہ و دستار والا۔ سب پاکستان میں برابر کے شہری ہیں اور حکمرانی صرف اسی کا حق ہے جسے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام اپنی آزادانہ مرضی سے صاف اور شفاف الیکشن میں منتخب کریں۔ کسی کی نا اہلی کے لیے اتنا کافی ہو کہ وہ کسی ملک، قوم، فرقے یا عقیدے کے خلاف منافرت کا مرتکب ہوا ہے۔ مذہبی، نسلی یا جنسی امتیاز کی بات کرتا ہے یا مذہب کے سیاسی استعمال سے باز نہیں آ رہا۔ تعلیمی نصاب کے علاوہ ہمارے میڈیا سے بھی اس بنیادی اصول کی پابندی کروائی جائے۔ سب سے بڑی سچائی تو یہ ہے کہ آج نہیں توکل ہمیں سیکولر ازم کے دامن رحمت میں ہی پناہ لینی پڑے گی اور اس مائنڈ سیٹ کو توڑنا پڑے گا جو اسے لادینیت کے معنوں میں پیش کرتے ہوئے نفرتوں کا بیوپار کرتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).