استاد محترم ڈاکٹر خالد سہیل سے اختلاف


شاگرد استاد سے اختلاف کرنا ترک کر دیں، تو علم اور تحقیق کا سلسلہ رک نہ جائے؟! ڈاکٹر خالد سہیل صاحب کے مضامین میں اکثر نکات پر میں ان سے متفق ہوتا ہوں اور جہاں مجھے ڈاکٹر صاحب سے اختلاف ہوتا ہے، وہاں میں بلا جھجک اس کا اظہار کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ حالیہ مضمون ’’ہمیں اپنے بچوں کو کس قسم کی مذہبی تعلیم دینی چاہیے؟‘‘ بھی ایک ایسا ہی شاندار مضمون ہے جس کو میں پڑھتا اور واہ وا کرتا چلا گیا، جب تک مضمون کے آخر تک نہیں پہنچ گیا، جہاں نالائق شاگرد کو محترم استاد سے اختلاف ہے۔

مذہب ایک ایسا سوال ہے جس پر بات شروع ہو تو فورا دماغ کا جو ایک آدھ دریچہ کھلا رہ گیا ہے، وہ بھی بند کر دیا جاتا ہے۔ تلواریں میان سے کھنچ جاتی ہیں اور منہ سے کف اڑاتے ہوئے فرمایا جاتا ہے، ’’کیا کہہ رہے تھے آپ؟‘‘ اس لیے مذہب پر بات کرنے سے گریز ہی کروں گا۔ مگر یہاں ہیگل کے شیلنگ سے مکالمے کی ایک سطر ضرور نقل کرنا چاہوں گا، جس میں ہیگل مذہب، روح، خدا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں ”ایک رات جس میں سب گائیں کالی ہیں“ سے تشبیہ دیتا ہے۔ شیلنگ نے قدیم یدش کہاوت سن رکھی تھی کہ ”دیپ بجھا کے سب ہم بستر ایک سے دکھائی دیتے ہیں۔“ گو کہ ہیگل کا اشارہ اسپینوزا کے تصور خدا کی طرف تھا، لیکن شیلنگ نے اسے خود پر حملہ تصور کیا اور پھر دونوں فلسفیوں کی دوستی جاتی رہی۔ امید ہے ڈاکٹر صاحب کا فیض تا حیات نصیب ہو گا کیونکہ میں فلفسی نہیں ہوں۔

ڈاکٹر صاحب نے ان گھرانوں کا ذکر کیا ہے، جہاں والدین میں سے ایک پا بند شریعت اور دوسرے ملحد، سیکولر یا ہیومنسٹ تھے۔ پاکستان میں اپنے قیام کے سالوں میں بہت سے ایسے واقعات کا مشاہدہ ہوا، جہاں ڈاکٹر صاحب کا سوال تو بہت دور کی بات ہے، مسلکی بنیاد ہی پر پیار محبت، شادی بیاہ پر تو تو میں میں ہو گئی۔ حتی کہ کسی بزرگ کی آخری رسومات کی ادائیگی پر مسلکی اختلاف پر، سگے بھائیوں کو لڑتے دیکھا۔ مذہب، الحاد، سیکولر ازم کے مسائل تو بہت دور کی بات ہے۔

یہاں تک تو میں اتفاق کرتا ہوں کہ ہمیں اپنی نسل کو مذہب رٹوانے کی بجائے، انہیں سائنسی اور تنقیدی سوچ کی تربیت دینی چاہیے۔ سکول کا سبق ہو یا مدرسے کا درس اسے ازبر کر لینے کی بجائے سوال کرنے اور سمجھنے کی ترغیب دینی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے مضمون کو مذہب تک محدود رکھا مگر میں بات آگے بڑھانے سے پہلے مذہب کے ساتھ فلسفہ اور نظریہ بھی جوڑنا چاہوں گا۔ کیونکہ کچھ لوگ مذہب کے ساتھ یا اس کے بغیر بھی کسی خاص فلسفے اور نظریے کے مقلد ہوتے ہیں اور اس فلسفے اور نظریے کی طرف ان کا رویہ ایسا ہی ہوتا ہے جیسے اکثر مذہبی افراد کا اپنے مذہب کے بارے میں۔ فرقہ پرستی کا ناسور معاشرے کی ترقی پسند پرتوں تک میں پایا جاتا ہے، گو اس کے مفہوم کچھ بدل جاتے ہیں۔ یہ زہر کس تیزی سے سرائیت کرتا ہے، اس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بائیں بازو کی اعلی قیادت تک میں اس کے اثرات دیکھنے کو ملے ہیں۔

ہم جس بھی مذہب، جس بھی مسلک، جس بھی نظریے یا فلسفے پر یقین رکھتے ہوں، وہ بچوں کو ضرور سکھائیں مگر تکفیری سوچ سے خود بھی دور رہیں اور بچوں کی تربیت بھی کریں کہ ہمارا ماننا ہے کہ فلاں مذہب، فلاں نظریہ درست ہے مگر دنیا میں بہت سے لوگ ہماری رائے سے متفق نہیں ہیں۔ ایسے لوگوں کو اختلاف کی وجہ سے حقارت سے نہیں دیکھیں۔ جہاں ایک طرف تکفیری سوچ اور فرقہ پرستی زہر قاتل ہے، وہاں اس کے ردعمل میں ایک اور فکر بھی پروان چڑھتی دکھائی دیتی ہے، وہ یہ کہ ہر مذہب، ہر فلسفے اور نظریے سے بیزاری اور لا تعلقی۔

بعض والدین خود اس کا شکار ہو گئے اور کچھ نے اپنے بچوں کو مذہب، فلسفے اور نظریہ اختیار کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیا۔ دوسرے لفظوں میں بچوں کی کس قسم مذہبی یا نظریاتی تربیت نہ کی۔ ایسا رویہ خود خطرناک نتائج کو دعوت دیتا ہے۔ قدرت کو خلا پسند نہیں ہے۔ وہ خواتین و حضرات جو دعوی کرتے ہیں کہ وہ کسی مذہب، کسی فلسفے کسی نظریے پر منطبق نہیں ہیں، ان کا یہ خلا اخبارات، میڈیا، ٹی وی کے ذریعے بالا دست حکمران طبقے کے پھیلائے ہوئے نظریات سے پر ہوتا ہے اور وہ معاشرے اور اپنے ماحول کے تصورات اور تعصبات کو منعکس کرتے ہیں۔ غالبا اینگلز نے کہا تھا کہ عام حالات میں محنت کش طبقے کے نظریات عمومی طور پر وہی ہوتے ہیں جو ریاست کا نظریہ ہوتا ہے۔

یہاں وہ مقام آتا ہے، جہاں ڈاکٹر خالد سہیل صاحب سے میں اختلاف کر جاتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کا ماننا ہے کہ ”مذہب انسان کا ہوتا ہے، ریاست کا نہیں۔ اور ریاست کی نگاہ میں سب شہری برابر ہوتے ہیں۔“ ڈاکٹر صاحب ریاست کو ماں جیسا ادارہ کہہ رہے ہیں، جبکہ میرے نزدیک ریاست سوتیلی ماں کی طرح ہے۔ ”خاندان، ذاتی ملکیت اور ریاست کا آغاز“ میں اینگلز ریاست کے بارے میں لکھتا ہے کہ ”ریاست کسی طرح ایسی طاقت نہیں جو سماج پر باہر سے مسلط کی گئی ہو۔‘‘

اسی طرح ریاست ’اخلاقی نظریے کی حقیقت‘، ’عقل و دانش کی صورت اور حقیقت‘ بھی نہیں، جیسا کہ ہیگل کا دعوی ہے۔ ریاست ارتقا کے خاص مقام پر سماج کی پیداوار ہے۔ ریاست اس بات کا اعتراف ہے کہ یہ سماج خود اپنے ناقابل حل تضاد میں پھنس گیا ہے اور یہ ایسے ناقابل مصالحت تضادات میں پڑ کے ٹوٹ گیا ہے، جن کو دور کرنے میں وہ ناچار ہے۔ لیکن اس لیے کہ یہ تضادات، متضاد معاشی مفادات رکھنے والے طبقات ایک دوسرے کو اور سماج کو اس بے سود جد و جہد میں تباہ نہ کر دیں، طاقت کی ضرورت پیدا ہوئی جو بظاہر سماج سے بالا تر ہو، طاقت جو تصادم کو معتدل بنائے، اس کو قاعدے کے اندر رکھے۔

یہ طاقت، جو سماج سے پیدا ہوتی ہے، لیکن خود کو اس سے بالا تر رکھتی ہے اور اس سے زیادہ سے زیادہ بیگانہ ہوتی جاتی ہے ’ریاست‘ ہے۔ ”مارکس کے مطابق ریاست طبقاتی تسلط کا ادارہ ہے، ایک طبقے کا دوسرے طبقے کو دبانے کا آلہ یہ ’نظم و نسق‘ کا قیام ہے جو طبقات کے درمیان تصادم کو معتدل بنا کر اس دباؤ کو قانونی اور مستقل بناتا ہے۔‘‘ لینن ریاست کے بارے میں کہتا ہے، ’’ریاست طبقاتی تضادات کے ناقابل مصالحت ہونے کی پیداوار اور مظہر ہے۔ ریاست وہاں، تب اور اس حد تک پیدا ہوتی ہے جہاں، جب اور جتنی حد تک طبقاتی تضادات میں معروضی طور پر مصالحت پیدا نہیں کی جا سکتی۔ اور اس کے برعکس ریاست کا وجود یہ ثابت کرتا ہے کہ طبقاتی تضادات نا قابل مصالحت ہیں۔‘‘

ریاست کا وجود ازل سے نہیں ہے نہ ابد تک رہے گا۔ تاریخ میں ایسے بہت سے سماج موجود رہے ہیں، جہاں ریاست موجود نہیں تھی۔ ریاست کا ظہور اس وقت ہی ہوا، جب ذرائع پیداوار اس قدر ترقی کر گئے کہ سماج میں طبقات وجود میں آئے اور جب یہ طبقات ختم ہو جائیں گے، تو ریاست بھی تاریخ اور میوزیم کی زینت بن جائے گی۔

آج کی تاریخ میں ریاست کا اپنا کوئی مذہب نہیں لیکن ریاست بقدر مذہب اور سیکولر ازم کو استعمال ہمیشہ کرتی ہے۔ یہیں کینیڈا میں گزشتہ عام انتخابات میں حجاب کی بحث کو کیسے ہوا دی گئی، یہ سب نے دیکھا۔ بہت سے یورپی ممالک میں حجاب پر پابندی لگا دی گئی۔ جبکہ وہ بھی سیکولر ریاستیں تھیں۔ دوسرا ریاست کی نظر میں سب شہری برابر ہوتے ہیں، یہ بھی اس وقت تک درست ہے، جب تک شہری کے مفاد بالا دست طبقے کے مفاد سے متصادم نہیں ہوتے یا شہری اس تصادم کا اظہار نہیں کرتا۔

میں دوبارہ کینیڈا ہی کی مثال دوں گا۔ جب اپنے حقوق کے جہدوجہد کرنے والے محنت کشوں کی ہڑتال کو کئی بار ’بیک ٹو ورک‘ کے کالے قانون سے کچلا گیا۔ 2010 میں یہیں ٹورانٹو میں جی ٹوینٹی اجلاس کے موقع پر بیس ہزار پولیس اور فوج کے دستوں پر مشتمل نفری کو دس ہزار پرامن مظاہرین کی سرکوبی کے لیے بھیج دیا گیا۔ پرامن مظاہرے کو روکنے سے جو اشتعال پھیلا اس کی زد پر خود پولیس بھی آئی۔ انتالیس افراد تو محض گرفتاری کے دوران تشدد سے زخمی ہوئے، وہ زخمی جو گرفتاری سے بچ گئے، ریاست نے ان کے اعداد و شمار جاری ہی نہیں کیے۔ عوامی دباؤ کے پیش نظر پولیس کے تشدد کے خلاف اکا دکا اہل کاروں کے خلاف مقدمات سنے گئے، لیکن معاملہ ٹھنڈا ہونے پر زیادہ تر مقدمات کو خارج کر دیا گیا۔ ایک دو اہل کار جن کو سزا ہوئی تھی انہیں چند گھنٹے کمیونٹی سروس کے عوض رہا کر دیا گیا۔

اس بحث کو میں یوں سمیٹوں گا کہ آپ جس مذہب، جس نظریے، جس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں، وہ نئی نسل تک ضرور پہنچائیں مگر انہیں فرقہ پرستی سے دور رکھیں۔ دوسرا بچوں کو آزادی کے نام پر کسی بھی قسم کے مذہب، فلسفے یا نظریے سے دور نہ رکھیں، ورنہ وہ آزاد سوچ کی بجائے ریاست کی غلام سوچ کو اپنا لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).