چائے والا بچہ، دیس کا موکھے منتری


کئی برس قبل ایک اشتہار بنانے والی کمپنی کے ساتھ کام کرنے کا اتفاق ہوا۔ مینجمنٹ کی جانب سے کہا گیا کہ چائے کا اشتہار بنانا ہے، جس کے لئے کچھ لکھ دیجیے۔ میں نے لکھا، ’’چائے کی ایک پیالی، کیا کیا کمال دکھاتی ہے۔ آسمان پر جڑے رشتوں کو زمیں پر ملواتی ہے، بہترین بزنس ڈیل کرواتی ہے۔‘‘ وغیرہ۔ اگر یہی اشتہار انڈیا میں بنانا ہوتا تو میں کچھ یوں لکھتی کہ ’’اس خاص چائے کی کچھ ایسی ہے جادو گری، کہ اس کو پلانے والا دیس کا بن جائے موکھے منتری۔‘‘ اور اچانک سے نریندر مودی جی اسکرین پر آ جاتے۔

یہ کوئی افسانہ نہیں بلکہ کہ حقیقت ہے۔ مودی نہایت کمر عمری سے ٹرین میں چائے بیچا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’دیکھنا صاحب! ایک روز یہ ساری جنتا میرے ساتھ چائے پینے کے خواب دیکھے گی۔ تم دیکھنا صاحب!‘‘ سین لگتا تو ذرا فلمی فلمی سا ہے، مگر مودی کا بچپن میں بولا ایک ایک لفظ حقیقت بنا۔ مودی نے اسکول کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد سترہ سال کی عمر میں گھر چھوڑ دیا۔ اس لیے اسکول سے آگے کا سبق انہیں کتابوں نے نہیں بلکہ دنیا نے سکھایا اور بڑی حد تک یہ وجہ بنی ان کی کامیابی کی۔

دوسری بڑی وجہ بھارت میں موجود انتہا پسند ہندوؤں کی تنظیم آر ایس ایس سے وابستگی۔ یاد دہانی کے لیے آر ایس ایس وہی تنظیم ہے، جس نے گاندھی جی کو قتل کیا۔ کیونکہ وہ سارے سماج کو جوڑ کر! برصغیر کو آگے لے کر چلنے کے فلسفے کے حامیِ تھے۔ ار ایس ایس سے وابستگی کے ساتھ ہی مودی کی فطرت بڑی حد واضح ہو جاتی ہے، مگر فطرت سے یاد آیا کہ ابھی حال ہی میں سابق RAW اور آئی ایس آئی کے سربراہوں کی مشترکہ کتاب شایع ہوئی، جس میں اے ایس دولت نے کہا کہ مودی کی فطرت بالکل لومڑی کی سی ہے۔ انتہائی شاطر اور موقع سے فائدہ اٹھانے والا شخص قرار دیا اور یہ بھی بتایا کہ خارجہ پالیسی کے اکثر معاملے میں وہ سشما سوراج کو اپنے ارادوں کی بھنک تک نہیں پڑنے دیتے۔

تین بار گجرات کے چیف منسٹر اور پھر بھارت کے وزیر اعظم تک کے سفر میں مودی نے ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھا۔ اس لیے دو ہزار سات سے قبل ایک انتہا پسند ہندو دکھائی دیتا ہے۔ 2002 میں جب پہلی بار گجرات کے وزیر اعلیٰ بنے مسلمانوں کے خلاف فساد پھوٹ پڑے۔ مگر مودی نے ایک بار بھی اس پر معذرت نہیں کی۔ اور اندر ہی اندر آر ایس ایس کے خوابوں کی تکمیل کرتے رہے جس کا نتیجہ ہندوستان میں موجود مسلمان مودی سے نفرت کرنے پر مجبور ہو گیا۔

اس دوران انڈیا ٹائمز پر ایک پروگرام میں بھارتی صحافی نے ان سے سوال کیا کہ اگر آج کاندھی جی ہوتے تو یقیناً آپ کے خلاف بھوک ہڑتال پر چلے جاتے۔ مودی نے کہا کہ آپ نے کبھی گاندھی جی کو غور سے پڑھا ہے۔ اگر آپ گاندھی کو پڑھا ہوتا تو مجھ سے یہ سوال نہ کرتے۔ بہر حال مودی نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بہتر کرنے کی کوشش کی، جس کی وجہ سے وہ میڈیا سے دور ہوتے گئے۔ شاید اس لیے کہ اپنے ماضی کے بارے میں کوئی سوال جواب نہیں چاہتے تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ بھارتی میڈیا کتنا زہریلا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر کبھی ان کو مسخرہ کہا گیا تو کہیں ان پر شدید تنقید ہوئی مگر مودی نے ڈھٹائی کا جو غلافِ اوڑھا، ان پر کسی بات کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ ان محدود سوچ نے بھارت کو بین الاقوامی سطح پر بڑی حد تک تنہا کر دیا ہے۔ جس میں آر ایس ایس کی تربیت کا بڑا تعلق ہے۔

آر ایس ایس سے یاد آیا کہ انہوں اس تنظیم کا سب سے بڑا ارمان پورا کردیا۔ وہ ہے کشمیر میں گورنر راج۔ دنیا نے سخت تنقید کی مگر انہوں وزیر اعظم بنے کے بعد بھی اپنی وفاداری پوری طرح سے نبھائی۔ دوسری جانب بالاکوٹ ایئر اسٹرائک اور پاکستان مخالف بلکہ زہر آلود بیانات کو بھی مودی نے پوائنٹ اسکورنگ کے استعمال کر رہے ہیں۔ بات چل نکلی ہے ہندوستان میں چناؤ کی تو اس سلسلے میں را کے سابق عہدیدار اے ایس دولت نے اپنی کتاب میں کہا ہے کہ عوام کو بے وقوف بنا کر پورے بھارت کو 2013 میں سرپرائز دیتے مودی کو ہو سکتا کہ اس بار ( 2019 کر عام انتخابات میں) ہندوستان کی جنتا، انہیں کوئی بڑا سرپرائز دے دے، کہ مودی کر ہاتھ صرف حیرت آے اور کچھ نہیں۔

پھر مجھے ایک آئیڈیا آیا کہ بھارت میں ہونے والے آیندہ انتخابات کے بارے ماہر فلکیات سے پوچھا جائے، اس سلسلے میں آن لائن ماہر فلکیات سے رابطے ہوئے، جن میں اکثر نے یہ پیش گوئی کر ڈالی، کہ ستارے تو یہ بتا رہے ہیں کہ ایک بار پھر مودی سرکار! تاہم اس سلسلے میں الیکشن کا سمے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو پھر یہ بات کہنا پڑے گی کہ ”آر ایس ایس کے کیمپوں میں مودی کے ہاتھ کی چائے نے کچھ ایسا رنگ جمایا، کہ ایک بار پھر ہندوستان میں مودی کی سرکارِ لے آیا۔‘‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).