دلی اطمینان اور پسند کا پیشہ


ماں باپ اپنے بچوں کے لئے بہت سی قربانیاں دیتے ہیں۔ وہ اپنی اولاد کو دنیا کی ہر چیز سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو ہمیشہ اس مقام پر دیکھنا چاہتے ہیں، جہاں کوئی اور نہ پہنچ سکے۔ کیونکہ ان کے لئے ان کی اولاد سے بڑھ کر اور کوئی شے نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اپنی اولاد کو ایک اونچے مقام پر دیکھنے کے لئے والدین اپنی اولاد کے بارے میں، ان کے پیشوں کے بارے میں، آنکھوں میں مختلف خواب سجاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کے مڈل کلاس طبقے میں یہ بات نہایت ہی عام ہو چکی ہے کہ بچے کو بڑے ہو کر کچھ مخصوص پیشے ہی اپنانے پڑتے ہیں۔ لڑکیوں کا ڈاکٹر اور لڑکوں کا انجینئر ہونا بہت ضروری ہو گیا ہے۔ جیسا کہ اگر اولاد ڈاکٹر، انجینئر اور پائلٹ جیسے شعبے نہیں اپنائے گی تو ان کو پڑھانا بے کار ہے۔ اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ صرف یہی پیشے اپنا کر نہایت اچھی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔

ابھی چند روز پہلے ہی یہ سوچ میرے ذہن میں آئی، کہ ایک طالبِ علم کو اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرتے ہوئے کیا اپنی مرضی سے کوئی بھی پیشہ اختیار کرنے کا حق ہے؟ یا ماں باپ کی محبت یا پھر اُن کے دباؤ میں آکر اُن کی مرضی اور ان کی پسند کا پیشہ اختیار کرنا چاہیے؟ یہی بات میں نے اپنے کزن جو کہ ایک ڈاکٹر ہیں ان سے بھی کی، کہ ان کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ وہ بھی ڈاکٹر نہیں بننا چاہتے تھے بلکہ انھیں صحافت کا بہت شوق تھا اور وہ صحافت میں اپنا نام بنانا چاہتے تھے۔ لیکن والد صاحب نے یہ کہہ کر اجازت نہیں دی کہ صحافت میں کیا رکھا ہے ایک بار محنت کر کے ڈاکٹر بن جاؤ، آگے زندگی میں آرام ہی آرام ہے۔ اور انھوں نے اپنے والد صاحب کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے میڈیکل کی پڑھائی جاری رکھی۔

یہ سب کہتے ہوئے مجھے اپنے کزن کی آنکھوں میں جو بے بسی نظر آئی میں اُسے بیان نہیں کر سکتی۔ ہاں وہ آرام سے زندگی تو بسر کر رہے ہیں اور آمدنی بھی ان کی اچھی خاصی ہے لیکن انھیں وہ دلی سکون میسر نہیں جو ہونا چاہیے تھا۔ ان کے بہت سے خواب ایسے تھے جو تکمیل نہ پا سکے۔

تو کیا فائدہ ایسے پیشے کا جو آپ کو دلی سکون ہی فراہم نہ کر سکا؟ جس معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں بہت سے طالبِ علم اپنی خواہشوں کا گلا گھونٹ کر اپنے ماں باپ کی مرضی کے آگے اپنا سر تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ تا کہ ان کے والدین چند لوگوں کے سامنے صرف یہ کہہ سکیں کہ دیکھا میرے بیٹے یا بیٹی نے میری بات مانتے ہوئے میری پسند کا پیشہ اختیار کیا۔

میرا ماننا یہ ہے کہ ہمیں اپنی سوچ کو بدلتے ہوئے اپنے معاشرے کی سوچ کو بدلنے کی بھی بے حد ضرورت ہے۔ ہر طالبِ علم کو وہی پیشہ اختیار کرنا چاہیے جس سے اس کے دل کو خوشی اور اس کے ذہن کو اطمینان ملے۔ ماں باپ کو بھی یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان کی اولاد کوئی پیشہ نہیں اپنانا چاہتی تو اسے اس سب کے لئے فورس نہ کیا جائے، بلکہ اولاد کو اس کی مرضی سے اپنی پسند کا پیشہ اختیار کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ جس سے کم از کم ان کی اولاد کو دلی سکون اور اطمینان تو میسر آ سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).