راجا فاروق حیدر خان: ایک مست درویش


میں نے راجا فاروق حیدر خان کی اکثر ایسی تصویریں دیکھی ہیں، جن میں وہ کسی محفل، بیٹھک یا جلسے میں بیٹھے، بیٹھے گھڑی دو گھڑی کے لیے اس دنیا کی ریل پیل کے بیچوں بیچ، دو آنکھوں کے پٹ بند کر کے اپنے الکھ نگر، اپنے خواب نگر میں پہنچے ہوتے ہیں۔ ایسے میں ان کی قریبی نشستوں پر براجمان نر، ناریاں اپنی انگشتِ تعجب ہونٹوں کی اور بڑھاتے ہوئے دبی دبی ہنسی کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے کانوں کی لووں کے پیچھے سے جیسے مدھو مکھیوں کا ایک قافلہ سارے میں سے گزر جاتا ہے، جس کی بھنبھناہٹ میں ہلکے قہقہے، سرزنش بھری ’’شی۔ ۔ ۔ شی۔ چپ‘‘، شرارت بھرے اشارے کنائے اور دور سے سنائی دیتے ہوئے طعنے مہنے، جملہ بازی، فقرہ بازی، ہلکی پھلکی گالی، یہ، وہ۔ ۔ وغیرہ وغیرہ شامل ہوتا ہے۔

پھر اسی فطری عمل کے معصومانہ عوامی اظہار کو بعد ازاں مختلف لوگ، مختلف پیرائے میں دیکھتے، پرکھتے اور درج کرتے ہیں، جو مجھ جیسے غیر حاضرینِ محفل تک ایک طنز آلود، ذاتیات پر حملہ کرتی گھٹیا سی ”پنچ لائن“ کے ساتھ بریکنگ نیوز کی صورت پہنچتی ہے۔ اور اس پر سیانے پہروں تبصرہ کرتے ہیں، اپوزیشن کا ردِ عمل آتا ہے، حواریوں کا مدافعتی رسپانس اور دیگر بے ٹکٹی گفتگو۔

جب کہ میرے دل میں جناب کی ایسی کسی بھی تصویر کو دیکھ کر نفسیات دانوں اور صوفیا کے یہاں موجود اس جذبے کا خیال آتا ہے، جو کسی بھی دنیاوی ججمنٹ کے خوف سے بالا تر ہوتا ہے۔ بالعموم بچوں اور بالخصوص درویش فقیروں میں پایا جاتا ہے، جن کو بغیر کسی خوف و خطر کے، نیند جب اور جہاں چاہے آ لیتی ہے۔ اس جذبے کو عمر کے دوسرے حصے میں بھی زندہ رکھنا ان لوگوں کا خاصہ ہے، جنہوں نے اپنے اندر کے معصوم بچے کو کبھی مرنے نہیں دیا، یا جو اندر سے اس قدر صاف دل اور مطمئن ہیں کہ کہیں بھی سکون کر لیتے ہیں۔

اس کے علاوہ خطاب اور تقاریر کے دوران اکثر راجا صاحب ایسی باتیں کہ جاتے ہیں کہ سننے والے کو جملہ معترضہ کا گمان ہوتا ہے۔ اپنی ترنگ میں بولتے ہوئے راجا صاحب بعض حساس اداروں، تاریخی شخصیات اور اپنی اور دیگر جماعتوں کے اہم کارکنوں کو یرغمال بناتے بھی نہیں چوکتے۔ ایسے میں راجا صاحب مجھے آپ کا کلی طور پر دفاع کرنے میں دقت پیش آئے گی۔ کیوں کہ کسی کی دل آزاری بہرحال ایک منفی عمل ہے۔ مگر عام لوگوں سے میری درخواست ہے کہ راجا صاحب کی ایسی باتوں کو درگزر کر دینا چاہیے کہ کھرا آدمی کبھی بناؤٹی انداز میں بات نہیں کرتا۔ وہ بالکل اپنے نیچرل انداز میں گفتگو کرتا ہے اور یہی ہمارے مست کا حال ہے کہ جیسے ہی کسی بات پر جذباتی ہو جاتے ہیں، بالکل ویسے ہی اس کا جذباتی اظہار بھی کر دیتے ہیں۔ اس میں عموماً لہجے کی سختی اور نا زیبا الفاظ بھی شامل ہوتے ہیں جس پر انہیں بعد ازاں معافی تلافی کر لینی چاہیے۔ میری نظر میں یہ معاملہ جناب کے مزاج اور طبیعت کا ہے، نا کہ نیت اور شخصیت کا۔ راجا صاحب کی طبیعت میں ایک الہڑ پن، جذباتیت، اور گھمنڈی پن پایا جاتا ہے، وگرنہ ان کا کھرا اور کھردرا پن ان کی صاف نیتی کی آپ گواہی ہے۔

سچ کہوں تو جگ روٹھے، جھوٹ بولوں تو رام
کبیر‘ بیچارا کیا کرے دونوں کٹھن کام
(بھگت کبیر)

مزید برآں کشمیری عوام ہمارے راجا صاحب کے چند ذاتی اشواق کے ساتھ ناپسندیدگی کا رشتہ رکھتی ہے۔ حالانکہ شوق کا کوئی مل اور کوئی عہدہ نہیں ہوتا۔ ایک افسر آدمی کے خاصے سستے شوق اور ایک نوکر آدمی کے خاصے مہنگے شوق ہو سکتے ہیں۔ شوق کا تعلق بھی مزاج اور طبیعت سے ہوتا ہے۔ تربیت سے نہیں۔ ایسے میں گزرے زمانوں کے کشمیری راجاؤں کا ایک دیو مالائی سا قصہ میرے ذہن میں آ رہا ہے۔ کہتے ہیں کشمیر کے ایک حکمران راجا کو کبھی کسی نے ہنستے ہوئے نہیں دیکھا تھا، کچھ بھی ہو جائے وہ ہمیشہ اداس رہتا تھا۔

ایک دن راجا اپنے محل کے دریچے سے سامنے ایستادہ پہاڑوں کا نظارہ کر رہا تھا کہ اچانک سے ایک رتھ پہاڑ کی چوٹی سے پھسل پڑا اور چیختا چنگھاڑتا ہوا پہاڑ سے نیچے کو گرا۔ اس منظر نے راجا کو اتنا محظوظ کیا کہ اس کے ہونٹوں پر ہنسی کھل اٹھی اور اس نے حکم جاری کیا کہ سو ہاتھیوں کو اس کی خدمت میں بلوا کر پہاڑ سے گرایا جائے۔ اب ایسے میں میرا کہنا ہے کہ کوئی پرکھا اگر اپنی ہنسی کی خاطر سو رتھ پہاڑ سے گروا سکتا ہے، اسد محمد خان کا انوکھا لاڈلا اپنے کھیلن کو چاند مانگ سکتا ہے، تو شاہی پرکھوں کی جھولیوں میں پلنے والا یہ چکاری راجا اپنی تفریح اور خوشی کے لیے چند شاہانہ شوق کیوں کر نہیں پال سکتا۔ اس پر میں مرزا غالب کے ایک شعر میں راجا صاحب کی آرزو سیمٹنا چاہوں گی۔

پھر دیکھیے انداز گل افشانی گفتار

رکھ دے کوئی پیمانہ صہبا مرے آگے

علاوہ ازیں راجا صاحب کے مست ہونے کا اندازہ ان واقعات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ ایک مرتبہ موصوف ضلع حویلی کے ہوائی دورے پر گئے۔ آپ مع کیپٹن سرسبز وادیوں کے حسین نظاروں میں اس قدر محو و جذب ہو گئے کہ پہاڑی سلسلوں کے سروں پر منڈلاتا ہیلی کاپٹر بے دھیانی میں لائن آف کنٹرول کی دوسری جانب چل دیا، جس پر بھارتی افواج نے فائرنگ کھول دی۔ جلدی سے حضور کے کیپٹن نے جہاز کا رخ موڑا اور اس دُرگھٹنا پر عوامی خطاب میں راجا صاحب نے بتایا کہ ہوا تو یہ غلطی سے ہے مگر جان کی اتنی کوئی پروا نہیں تھی مجھے، آخر کو وہاں بسنے والے میرے کشمیری بھائی روز موت کے منہ میں جیتے ہیں۔ معزز قارئین، میں آپ کو بتا رہی ہوں کہ راج گھرانے کا یہ شجاعت بھرا راجا، بڑی با ہمت اور پر اعتماد شخصیت کا مالک ہے اور سرور و مستی کا یہ عالم ہے کہ اپنی جان کی بھی پروا نہیں۔

حال ہی میں فروری 2019 میں پونے والی انڈیا پاکستان کشیدگی میں پاکستان آنے اور جانے والی دونوں اطراف کی پروازیں روک دی گئیں، اور راجا صاحب برطانیہ میں پھنس کر رہ گئے، وہاں ان کی تڑپ، بے چینی، اور کشمیری عوام کے ساتھ محبت دیدنی تھی۔ وہ اس قدر بوکھلائے ہوئے تھے کہ خطے کے وزیرِ اعظم ہو کر ٹیلی فون یا انٹرنیٹ سے فلائٹس کی اپ ڈیٹس لینے کی بجائے آپ روز خود ایئر پورٹ پر جا کر پروازوں کا پتا کرتے رہے اورپھر واپس آ کر آپ نے چکوٹھی بارڈر اور لائن آف کنٹرول کے مختلف علاقوں کا دورہ کیا۔

جہاں آپ نے بوڑھی عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ یوں اظہارِ یکجہتی کیا کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ راجا صاحب بنیادی طور پر عوامی آدمی ہیں۔ آپ کا مزاج بھلے شاہانہ شوخیوں و ناز و ادا سے بھر پور ہو آپ کی تربیت میں درد مندی، انسان دوستی اور کسرِ نفسی شامل ہیں۔ آج تک اس تصویر کی جھلکیاں میری آنکھوں میں ابھرتی ہیں جس میں بارڈر ایریا کی مہاجرین ماؤں میں سے ایک جناب کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر، بند آنکھوں اور تبسم آمیز ہونٹوں کے ساتھ اسے یوں چوم رہی ہے، ’گویا یہی ڈوبتے کو سہارا‘ ہوں اور ایسے میں ننگی زمیں پر بچھی چٹایوں پر دو زانوں ہو کر بیٹھے ہوئے ہمارے راجا صاحب انہی میں سے ایک لگتے تھے۔

مظفر آباد کے میرے حالیہ تحقیقاتی دورے کے دوران مجھے معلوم پڑا کہ راجا صاحب نے ہمیشہ سے بڑی سادہ لوح طرزِ گزر بسر کو اپنائے رکھا۔ ان کے یہاں ایک مشہورِ زمانہ گرین کھٹارا جیپ ہوا کرتی تھی، جس کا کام بس راجا صاحب کے بچوں کو سکول کالج سے پک اور ڈراپ کرنا تھا۔ اس سے زیادہ کی مسافت کے لیے گرین کھٹارا نا ساز تھی۔ راجا صاحب کا اپنا بچپن بھی کسی محل سرا میں نہیں گزرا تھا۔ ان کا رہن سہن ہمیشہ سے سادگی کا نمونہ رہا، شاید اسی لیے ہمارے راجا صاحب کے جی میں جو جگہ عوام کے دکھ درد اور کشمیر کی کشمیری شناخت کے لیے ہے، وہ اپنے نام کی ایک ہی مثال ہے۔

بات اسی نہج پر جاری رہی تو شاید یہاں ’یک راجا ترنگ‘ نوشت ہو جائے، لہذا تحریر کو یہیں سماپت کرتے ہوئے آخر میں عوام سے میری درخواست کہ راجا صاحب کی تلخ بیانیوں کو ان کی خرابی ِ مزاج جان کر درگزر کر دینا چاہیے اور راجا صاحب سے میری بِنتی ہے کہ اگر وہ اپنے وقتی برہمیِ مزاج کی بنا پر تلخ کلامی سے گریز کریں توعوام جو پہلے ہی ان کی گرویدہ ہیں، مزید محبتوں سے انہیں نوازیں گے۔

پس نوشت: وضاحتی تدبیر کرتی چلوں کہ درج بالا تحریر کسی طور سیاسی طنز و مزاح نگاری نہیں ہے۔ نا ہی کسی مخصوص سیاسی گروہ کی قصیدہ گوئی ہے۔ نا تو میں مزاح نگار ہوں نہ سیاسی تجزیہ کار۔ میں سر زمینِ کشمیر کی دھرتیِ پونچھ سے تعلق رکھنے والی ایک عام سی راجی ہوں، جس کے پرکھوں کی لڑیاں خاندانی شجرہِ نسب کے مطابق کھکھہ راج گھرانے سے ملتی ہیں۔ یہ تحریر کلی طور پرراجا صاحب کی شخصیت کے بارے میں میرے داخلی اور قلبی جذبات کا اظہاریہ ہے۔ راجا صاحب سے میری ذاتی ملاقات نہیں ہے، اس لیے اس تحریر میں ذاتی یا خاندانی سظح پر ہونے والے میل ملاپ کے کسی تجربے سے کشید کی گئی کوئی مثال موجود نہیں ہے۔ راجا صاحب کی پبلک پروفائل، اخبارات، ٹی وی چینلز، اور سوشل میڈیا کی وساطت سے منظر ِ عام پر آنے والی ان کی گفتگو، تصاویر، سرگرمیاں، علاوہ ازیں راجا صاحب کے مظفر آبادی پڑوسیوں کی زبانی کچھ چشم دید کہانیاں اور دیگر ایسے ہی عمومی تعارف کی بابت جو مجھے ان کی کی شخصیت کے بارے میں محسوس ہوا، میں نے قلم بند کر دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).