وفاق سے اچھا تعلق: گلگت بلتستان کی مجبوری


گلگت بلتستان میں حکومت قائم کرنا اور چلانا جہاں انتہائی آسان ہے وہی پر انتہائی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے کہ وفاق میں اقتدار میں آنے والی پارٹی ٹھیک دوسال کے بعد اپنا دائرہ اختیار کو گلگت بلتستان تک توسیع دیتی ہے۔ یہ روایت چلی آ رہی ہے۔ پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے گزشتہ الیکشن کے ساتھ ہی یہ مطالبہ بھی کر دیا تھا کہ گلگت بلتستان اور آزاد جموں کشمیر میں بھی انتخابات وفاق کے ساتھ ہی کرائے جائیں تا کہ سیاسی مداخلت جی بی اور اے جے کے میں کم سے کم ہو سکے۔

جس پر پی ٹی آئی نے رد عمل دیا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے اس ’این آر او‘ کی روایت سے بھرپور فائدہ اٹھا کر گلگت بلتستان میں اپنی حکومت قائم کی ہے اور اب ہماری باری آ گئی تو ان کو ایک ساتھ الیکشن کرانے کی یادیں ستا رہی ہیں جسے ہم مسترد کرتے ہیں اور اسی راستے سے ہم بھی اقتدار میں آ جائیں گے، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ردعمل دینے والا متحرک رہنما آج کل انتہائی عتاب میں ہے، اس کی کشتی قیادت کی دوڑ سے باہر ہوتی جا رہی ہے۔

گلگت بلتستان کو دیا گیا نظام ہی ایسا ہے کہ اس میں وفاق سے تعلقات بہتر رکھنا جی بی کی مجبوری ہے۔ اگر گلگت بلتستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت نہ ہوتی تو متعدد میگا منصوبے جو زیر تکمیل ہیں یا مکمل ہو چکے ہیں، وہ شروع بھی نہیں ہوتے لیکن صوبائی حکومت نے اپنے تنظیمی تعلقات کی بنیاد پر بھرپور فائدہ اٹھالیا، ان تعلقات کی آڑ میں نہ صرف کئی میگا منصوبوں کی منظوری حاصل کر لی بلکہ ساڑھے سات ارب روپے کے بجٹ کو بھی بڑھا کر 17 ارب تک پہنچا دیا۔

جی بی میں حکومت کرنے کا دورانیہ گو کہ ملک بھر کی طرح پانچ سال کا ہی ہوتا ہے لیکن پانچ سالوں میں صرف تین سال تک کام ’بھرپور‘ انداز میں کیا جا سکتا ہے اور حکومت فعال رہ سکتی ہے جبکہ بچے ہوئے دو سالوں میں وفاقی حکومت کی پارٹی اس حکومت میں اپنا حصہ ڈال دیتی ہے۔ گر چہ ابھی تک تحریک انصاف کی گلگت بلتستان پارٹی کی نظریں صرف اور صرف زکواۃ فنڈز اور بیت المال پر ہی ہیں، جس کی وجہ سے اس وقت زکواۃ فنڈز کے تمام کاپیاں اور رسیدیں بھی تحریک انصاف والوں کے پاس ہیں۔ تحریک انصاف ابھی تک اپنی غیر تجربہ کاری اور مرکزی قیادت کی جانب سے نظر انداز ہونے کے غم میں ڈوبی ہوئی ہے، جس کی وجہ سے اس انداز میں فعال نہیں ہے جس طریقے سے ہونا چاہیے۔

وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت ختم ہونا اور اس سے قبل نواز شریف کا تختہ دھڑن ہونا ابھی تک جی بی کے لئے نیک شگون ثابت نہیں ہو سکے، بلکہ ان دونوں کے اثرات گلگت بلتستان پر منفی ثابت ہوئے ہیں۔ جس وقت میاں محمد نواز شریف کی کہانی چل رہی تھی اس وقت میاں محمد نواز شریف نے سرتاج عزیز کی سربراہی میں آئینی حقوق کے تعین کے لئے کمیٹی بنائی تھی، لیکن کمیٹی اپنے منطقی انجام تک پہنچنے سے قبل ہی میاں محمد نواز شریف کو گھر روانہ کر دیا گیا۔

یوں جی بی کے لئے ممکنہ ایک تاریخی موڑ یا دوراہا چھوٹ گیا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے آخری ایام میں بھی جی بی کے متعدد میگا منصوبے زیر غور تھے اور کئی منصوبے منظور ہو چکے تھے۔ جبکہ بعض منصوبوں پر باقاعدہ کام بھی جاری تھالیکن ’قسمت کی دیوی‘ تحریک انصاف پر مہربان ہو گئی اور جی بی سے روٹھ گئی۔ کیونکہ گلگت بلتستان میں ابھی تک مسلم لیگ ن کی حکومت جاری ہے۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے ملک کے چاروں صوبوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی متعدد اہم منصوبوں کو روک دیا اور وجوہات میں بتایا کہ پاکستان معاشی طور پر غیر مستحکم ہوتا جا رہا ہے، جس میں کفایت شعاری کرنے کی ضرورت ہے، بطور سپیکر خیبر پختون خواہ اسمبلی کہ ’دو نہیں ایک نان‘۔

وفاقی حکومت جس کسی کی بھی ہو، یا صوبائی حکومت جی بی میں جو بھی پارٹی آ جائے، اس ’گورنمنٹ گیپ‘ نے علاقے کو سخت نقصان اور شدید دھچکا پہنچایا ہوا ہے۔ سرکاری دفاتر میں گھومنے پھرنے والے جانتے ہیں کہ ایک لاکھ روپے کا منصوبہ منظور کرانا کتنا مشکل ہوتا ہے، جبکہ یہاں اربوں روپے کے منصوبے بیمار ہوتے جا رہے ہیں، اور فائلوں کے اندر ہی اندر سڑ کر مر جاتے ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے قائم ہونے کے بعد ابھی تک متعدد منصوبوں کو روک دیا گیا ہے جن میں سالانہ ترقیاتی پروگرام سے 2 ارب روپے، گلگت سیوریج منصوبہ، گلگت تا چترال چک درہ روڈ، میڈیکل کالج، ویمن کالج، بجلی کی پیداوار کے منصوبوں کے علاوہ دیگر منصوبے شامل ہیں، جبکہ سپریم کورٹ میں جی بی کی ڈولتی صورتحال کی وجہ سے جی بی کونسل کے 2 ارب روپے بھی کشمیر افیئرز میں پھنسے ہوئے ہیں جنہیں جاری کرنے سے گریزاں ہیں۔

درج بالا گلگت بلتستان کی مجبوری کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف جی بی کی قیادت سے ہمدردیاں اور نیک خواہشات موجود ہیں، حالانکہ پیپلزپارٹی اس بات کے لئے بھی تیار ہے کہ اس بار روایات کو توڑ کر حکومت بنانے کا سلسلہ گلگت بلتستان سے شروع ہو گا جو کہ وفاقی حکومت کے قائم کرنے میں مددگار ثابت ہو گی، یعنی پیپلز پارٹی آیندہ سال الیکشن میں جی بی حکومت بنائے گی اور اگلے ملکی عام انتخابات میں جی بی حکومت وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کرنے کا سبب بنے گی۔ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے البتہ یہ بات بڑی واضح ہے کہ جی بی میں اس وقت سب سے متحرک اور فعال پیپلز پارٹی ہی ہے اور مرکزی سطح پر بھی مضبوط روابط موجود ہے۔

گلگت بلتستان میں تحریک انصاف اگر فعال ہوتی تو وفاقی حکومت کے ذریعے جی بی میں منصوبے شروع کرا سکتی تھی، وزیر امور کشمیرو جی بی نے گلگت بلتستان سے وزیر اعظم کا مشیر منتخب کرنے کا بھی فیصلہ کر لیا تھا جس کے لئے راجا جہانزیب کا نام طے کیا جا چکا تھا تاہم صوبائی قیادت نہ ہونے اور پارٹی امور متاثر ہونے کی وجہ سے اس معاملے پر کوئی بھی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ یہی نہیں اگر کوئی خصوصی منصوبہ بھی اگر وفاقی حکومت کی جانب سے منظور ہوا ہوتا تو تحریک انصاف کے ’نوجوان‘ بیت المال پر ڈیرے نہ ڈال لیتے جو کہ صرف غریبوں اور مستحقین کا فنڈ ہے، جس میں زیر زبر بھی قدرت کی پکڑ میں ضرور آتا ہے۔

اس وقت وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اس حقیقت کا ادراک کرنے کے باوجود وفاقی سطح پر بھرپور متحرک ہیں اور منصوبوں کی منظوری کے لئے ملاقاتوں پر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ یہ کیس صرف مسلم لیگ ن کا نہیں ہے بلکہ گلگت بلتستان کا ہے اور سردست وزیر اعلیٰ اس کو اکیلے لے کر چل رہے ہیں۔ حالانکہ وزیر اعلیٰ اس بات کا بھی ادراک رکھتے ہیں کہ ترقیاتی منصوبوں کی منظوری اور تکمیل کی حیثیت انتخابات میں ایک بینر کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے اور کبھی بھی منصوبوں کی بنیاد پر ووٹ نہیں پڑا ہے، بلکہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر اور تحفظ کے لئے ہی ووٹ دیتے ہیں۔ اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وزیر اعلیٰ کی اس تحریک کی حوصلہ افزائی کی جائے تا کہ ترقیاتی منصوبوں کے بحران سے باہر نکل سکیں اور گلگت بلتستان کے ضروریات کے مطابق ترجیحی منصوبوں کو جلد از جلد منظور کرایا جا سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).