غلامی کا تصور اور اسلام پر اعتراض


یورپی ممالک خود کو بہت مہذب اور انسان دوست سمجھتے ہیں مگر ہیں انتہائی منافق جو انسانیت کو کچلتے پھر رہے ہیں۔ ان کی چالیں شطرنج کی چالوں سے بھی زیادہ خطرناک ہیں۔ کچلنے کے لئے پہلے بہانے پیدا کرتے ہیں۔ ان بہانوں کو پیش کرتے ہوئے انسانیت کو کچلنا مجبوری گردانتے ہیں اور جب اچھی طرح انسانیت کو کچل چکے ہوتے ہیں تو پھر ہمدردی جتانے کے لئے دوڑے چلے آتے ہیں کہ ہم آپ لوگوں کے بہت ہمدرد ہیں۔ انسان ہونے کے ناتے سے ہم سے بڑھ کر آپ کا کوئی ہمدرد نہیں ہو سکتا۔

کل ایک دوست نے سوال کیا کہ آج کی پوری دنیا انسان کی غلامی کو جرم قرار دے چکی ہے، اقوام متحدہ کا قانون اس بات پر پابندی لگا چکا ہے کہ کوئی انسان کسی انسان کو غلام نہیں بنا سکتا۔ مگر میرا سوال ہے کہ اسلام جو ایسا دین ہے جس نے انسانیت کی تکریم کو عروج بخشا ہے، اسلام میں انسان کا انسان کو غلام بنانا جائز کیوں ہے؟ اسلام نے غلامی کا تصور کیوں پیش کیا؟

یہ سوال صرف میرے دوست کا نہیں تھا یہ آج کے تمام مسلمانوں کا سوال ہے۔ لبرل اور ملحدین کا اسلام پر بہت بڑا اعتراض بھی ہے۔ میں نے اپنے دوست کو سمجھایا وہ تو سمجھ گیا آپ قارئین کی نذر بھی کرنا چاہتا ہوں۔ جس کے لئے پہلے دو سوالات بنانا ہوں گے تا کہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔

پہلا سوال:
ہمیں اس بات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ غلامی کا موجد اسلام ہے یا اس تصور کی عملی شکل پہلے بھی موجود تھی؟

دوسرا سوال:
کسی انسان کو غلام کن مواقع پر بنایا جاتا ہے۔ چلتے پھرتے کوئی بھی کسی انسان کو پکڑ کر غلام بنا لیتا ہے یا اس کا کوئی مخصوص طریقہ ہے؟

پہلے سوال کا مختصر جواب اسلام نے غلامی کا نظریہ نہیں دیا، یہ عربوں کا دستور تھا یا رسم و رواج یا کچھ اور سمجھ لیں۔ غلامی کا تصور پہلے سے موجود تھا۔ اسلام نے اسے جاری رکھا۔ لہذا اسے اسلام کے کھاتے میں ڈالنا سرے سے غلط اور بہت بڑی بد دیانتی تصور کیا جائے گا۔

دوسرے سوال کا جواب غلام بنانے کا طرز سے ہے۔ پہلی صورت تو جنگ ہے، جب بھی کوئی بھی قبیلہ کسی دوسرے قبیلہ کے خلاف جنگ لڑتا جو قبیلہ جنگ جیت جاتا اس مغلوب کا مال و دولت بیوی بچے الغرض ہر چیز مفتوحہ کی ملکیت بن جاتی۔ جو لوگ قتل ہونے سے بچ جاتے وہ بیوی بچوں سمیت غلام بنا لیتے جاتے۔ جبکہ دوسری صورت کی وجہ بھی پہلی صورت ہی ہے جسے پہلی صورت کی اضافی شکل کہا جا سکتا ہے۔ وہ یہ کہ جن کے پاس غلاموں کی کثرت ہوتی یا جسے ضرورت نہ ہوتی تو وہ اپنے دو تین غلاموں میں کسی ایک دو کو بطورِ مال بازار میں بولی کے لئے پیش کرتا۔ جسے بڑے بڑے تاجر آ کر خرید لیتے۔ جس کی مثال قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کی صورت میں ملتی ہے، انھیں مصر کے بازار میں بیچا گیا۔

اعتراض تھا کہ اسلام نے غلامی کا تصور پیش کیا جو کہ بہت بڑا بہتان ہے۔ اسلام پر کذب ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے غلامی کی عملی شکل پہلے سے موجود تھی اسلام نے اسے جاری رکھا۔ دوسرے سوال پر ہونے والا اعتراض کہ اسلام نے بہت سے لوگوں کو غلام بنایا، اس میں بھی تعصب ہے۔ آپ ذرا سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسلام کی سب سے پہلی جنگ جنگِ بدر ہے، جو دوسری ہجری میں لڑی گئی اس سے پہلے مسلمانوں نے کوئی جنگ لڑی ہی نہیں تھی، تو پھر کیسے غلام بنایا؟ جنگ بدر سے پہلے تو مسلمان خود مظلوم تھے۔ کفارِ مکہ نے ان کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ اور رہی بات غلام خریدنے والی تو اس کا جواب بھی یہی جنگ بدر ہی ہے، جس میں مسلمانوں کے پاس اتنی دولت بھی نہیں تھی کہ وہ جنگی ساز و سامان خرید لیں۔ وہ غلام کیسے خریدا کرتے تھے؟ لہذا یہ دونوں اعتراضات بنتے ہی نہیں۔

اب آتے ہیں اس آخری اعتراض کی طرف جو کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں نے غلامی کے تصور کو ختم کیوں نہ کیا؟ اس کا جواب یہی ہے کہ غلامی کی عملی شکل اتنی مضبوط تھی اور معیشت میں اس کا اتنا کردار تھا کہ عرب لوگ اسے چھوڑ نہیں سکتے تھے۔ اس کے باوجود اسلام نے غلامی کو ختم کرنے کا تصور غلام آزاد کرنے کی صورت میں پیش کیا ہے۔ ہر موقع پر مسلمانوں کو یہ تعلیم دی جاتی کہ اپنے کفارہ کے بدلے غلام آزاد کریں۔ اور غلام آزاد کرانے کا کتنا اجر ہے اس پر بہت سی احادیث موجود ہیں۔ یہی وہ شعوری تصور تھا جو پھلتا پھولتا آج اقوام متحدہ میں جرم بن چکا ہے۔ جسے اقوام متحدہ اپنا کارنامہ سمجھ بیٹھی ہے۔ حالانکہ اقوام متحدہ نے بھی یک دم اسے جرم قرار نہیں دیا کانفرنسز ہوتی رہی ہیں، بحث ہوتی رہی ہے اور اس سب کے باوجود غلامی کی کچھ نئی شکلیں آج بھی رائج ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).