پاکستانی صحافت: معاشی سے زیادہ اخلاقی بحران


پاکستان میں صحافی کی نمایندہ تنظیمیں، اکثر پاکستانی صحافیوں کی معاشی بدحالی پر نوحہ خواں رہتی ہیں، مگر کم ہی کوئی اس اخلاقی بدحالی کا ذکر کرتا ہے، جس نے پاکستانی میڈیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بریکنگ نیوز کی دوڑ میں شامل صحافیوں میں، صحافتی اقدار کی تنزلی کی رفتار روپے کی قدر میں تنزلی سے بھی زیادہ ہے۔

سوشل اور ڈیجیٹل میڈٰیا کی ترقی نے روایتی صحافت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ایسے میں وہی صحافی اپنی پیشہ ورانہ بقا کو یقینی بنا سکے جو ایک سے زیادہ شعبوں میں مہارت رکھتے تھے یا بدلتے حالات کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے کے لیے نئے آلات اور ٹیکنالوجی کا استعمال سیکھتے رہے۔ میڈیا ہاوسز نے ڈاون سائزنگ کے ذریعے کئی کئی سال پرانے کارکنوں کو فارغ کر دیا۔ کئی روایتی اخبار اور جریدے ڈیجیٹل ورلڈ میں اپنا مقام نہ بنا سکے تو اپنی اشاعت بند کرنے میں عافیت جانی۔

عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کے برسر اقتدار آنے کے بعد میڈیا کے معاشی بحران نے مزید شدت اختیار کی۔ اکثر بڑے میڈیا ہاوسز نے یا تو کئی ماہ تک کارکنوں کو تنخواہیں ادا نہیں کی یا پھر انہیں بتدریج انفرادی اور اجتماعی طور پر ملازمتوں سے نکالا گیا۔ آئے روز صحافتی تنظیمیں کارکنوں کی معاشی بدحالی اور ان کی ملازمتوں سے فراغت کو بنیاد بنا کر احتجاج پر بیٹھتی ہیں۔ مگر آج تک ان میں سے کسی تنظیم نے صحافتی کارکنوں کی پیشہ ورانہ اور اخلاقی بدحالی پر توجہ نہیں دی۔

مشرف دور میں میڈیا کو ملنے والی آزادی مضبوط اور قابل عمل صحافتی قوانین اورضابطہ اخلاق کی عدم موجودگی کے باعث کئی لحاظ سے معاشرتی شکست و ریخت کا سبب بنی۔ بریکنگ نیوز کے نام پر ہم نے اپنی اپنی ٹیلی ویژن سکرینوں پر کیا کیا نہیں دیکھا۔ کہیں بم دھماکے کے لائیو مناظر دکھائے جا رہے تھے تو کہیں خون آلود لاشوں کے چیتھڑے بکھرے پڑے نظر آتے تھے۔ کہیں کوئی رپورٹر کسی زخمی کے منہ میں ٹی وی چینل کے لوگو سے مزین مائک گھسیڑے بیٹھا ہے۔ کوئٹہ میں سیکورٹی چیک پوسٹ پر حاملہ ازبک خواتین کو فورسزکی گولیوں کا نشانہ بنتے کس نے نہیں دیکھا؟ پارہ چنار دھماکے میں مرنے والوں کی لاشوں کے پارچے دِکھا دِکھا کرٹی وی کی سکرینیں تک سرخ کر دی گئی تھیں۔

رینجرز کے ہاتھوں کراچی میں سرفراز نامی نوجوان کی ہلاکت کی ویڈیو آج بھی کئی لوگوں کے دماغ میں چل رہی ہے۔ اور پھر پشاور میں آرمی پبلک سکول پر حملے میں مارے گئے بچوں کی خون آلود تصاویر، ان کے کپڑے جوتے اور کتابیں، اسی میڈیا نے قوم کو کیا کیا نہیں دکھایا۔

تحقیقاتی رپورٹنگ کے نام پر کئی کیمرے تو لوگوں کے بیڈرومز تک میں گھس گئے۔ کئی بار تو میڈیا نے نجی اور عوامی زندگی کے درمیان کا باریک فرق بھی روند ڈالا۔ اہم شخصیات تو کجا، عام آدمی سے بھی نجی زندگی کا حق تک چھین لیا۔ بیماری میں تڑپتے مریض، آبرو ریزی کا شکار خواتین۔ جنسی تشدد کا نشانہ بنے معصوم بچے، ہجوم کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے نوجوان، وہ سب تو ہمارے میڈٰیا نے دکھایا جو دکھانا چاہیے تھا مگر ساتھ میں وہ سب بھی دکھایا جو شاید کبھی نہیں دکھانا چاہیے تھا۔

ٹاک شوز میں تیلی لگا کر ماحول گرم کرنے والے اینکر کئی مرتبہ شرکا کو اس سطح پر لے گئے کہ دستار پوشوں کے ہاتھ برقع پوشوں کے نقاب سے ہوتے ہوئے شلواریں کھینچنے تک جا پہنچے اور یہ مناظر بھی اس ملک کے ناظریں نے براہ راست دیکھا اور سنا۔ ایک وقت آیا کہ گھروں میں بچوں اور خواتین کے سامنے نیوز چینل نہیں لگایا جاتا تھا، مبادا وہ کوئی نیوز بلٹن یا ٹاک شو دیکھ لیں۔ صحافیوں پر ہونے والے تشدد پر ملک بھر میں بلکہ دنیا بھر سے آوازیں اٹھتی رہیں، مگرصحافتی تھانیداری کی جانب کم لوگوں کا دھیان گیا۔

ایک طویل بحث کے بعد میڈٰیا مالکان، صحافیوں اور حکومت کے درمیان چھے نکاتی ضابطہ اخلاق پر اتفاق ہوا۔ ان چھے نکات میں کوریج کے دوران سچائی اور درستی کو یقینی بنانا، اجتماعیت کا اصول یعنی اقلیتی گروہوں اور چھوٹے طبقات کا تحفظ اور مناسب نمایندگی دینا، صحافتی آزادی کا خیال رکھنا اور اسے یقینی بنانا۔ غیر جانبدارانہ اور منصفانہ طرز عمل، رازداری اور نجی زندگی کا احترام، احتساب اور گڈ گورننس کے علاوہ آخری اور سب سے اہم اصول انسانیت اور کسی کو نقصان نہ پہنچانے کی ذمہ داری شامل ہیں۔

ان اصولوں کی بنیاد پر قائم صحافت حقیقی معنوں میں کسی ریاست کا چوتھا ستون ثابت ہو سکتی ہے۔ مگر بد قسمتی سے یہ اصول بھی محض کتابی ہی ثابت ہوئے اور میڈٰیا کے شہ زور اسی انداز میں ان اصولوں کو بھی پا مال کرتے رہے جس طرح ہمارے ہاں دیگر شعبوں میں قوانین اور اخلاقیات کو طاقتور کے پاوں تلے مسلا جاتا رہا ہے۔

تازہ ترین مثال اسی ہفتے سامنے آئی جب اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران ایک رپورٹر نے سابق وفاقی وزیر اور پاکستان پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر الزمان کائرہ کو ان کے بیٹے اسامہ قمر کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کی خبر دی۔ بریکنگ نیوز کے شیدائی رپورٹر سے یہ انتظار بھی نہیں ہو سکا کہ خبر ٹیلی ویژن کی سکرین پر نشر ہو اور جاری پریس کانفرنس کے بیچ میں ہی ایک باپ کو یہ اطلاع پہنچا دی کہ ٹریفک حادثے میں ان کا جواں سال بیٹا اپنی زندگی کھو بیٹھا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ وہی رپورٹر کائرہ صاحب کے کسی قریبی شخص کے ذریعے ان تک اس انداز میں پہنچاتا کہ یہ خبر وہیں سے لائیو ٹیلی ویژن سکرینوں پر نشر نہ ہوتی؟

بدخبریاں پاکستانی میڈٰیا کی ضرورت ہیں کیونکہ اس سے سنسنی زیادہ پھیلتی ہے۔ ایک عرصے تک حادثات، دہشت گردی اور لوگوں کے دکھ درد کی کوریج کرنے والے بیشتر صحافیوں کے ساتھ ساتھ ٹیلی ویژن کی سکرین پر دیکھنے والے عوام کے اندر دکھ کا احساس کہیں دفن ہو چکا ہے۔ یہ احساس جاگتا اسی وقت ہے جب اس نوعیت کو صدمہ خود پر ٹوٹتا ہے۔ لوگوں کے دکھ درد اجاگر کرنا میڈیا کی ذمہ داری ہے۔ مگر یہ سب دکھانے میں اخلاقیات کی بنیادی حدود کو روندنا اسی صحافتی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، جسے اتفاق رائے سے اپنے اوپر نافذ کیا گیا ہے۔

صحافیوں کی معاشی بدحالی پر نوحہ کناں تنظیموں کو اپنی جدوجہد جاری رکھنی چاہیے مگر ساتھ ساتھ انہیں خود بھی صحافیوں کی پیشہ ورانہ اور اخلاقی تربیت کرنی چاہیے۔ اور میڈیا ہاوسز کو بھی احساس دلایا جانا چاہیے کے ان کے کارکنوں کی آن جاب ٹریننگ ضروری ہے۔ تا کہ وہ خبریں جمع اور نشر کرتے وقت بنیادی اقدار و اخلاقیات سے رو گردانی نہ کریں۔ معاشی بدحالی فی الواقعی صحافیوں کا ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اسے سے بھی اہم مسئلہ بہت سارے لوگوں کی پیشہ ورانہ اور اخلاقی بدحالی ہے۔ اس پر میڈیا ہاوسز، صحافتی تنظیموں اور سب سے بڑھ کر خود صحافیوں کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).