عورت خور درندے اور غسل جنابت سکھانے والا نصاب


ایک بہو اپنی ساس کے یہاں گئی اور کہا، ’’اماں جی، میری بیٹیاں اب جوان ہو گئی ہیں۔ آپ کو تو پتا ہے، آپ کا بیٹا روز شراب کے نشےمیں دُھت رہتا ہے، مقوی باہ ادویات استعمال کرتا ہے۔ باہر منہ مار بھی آئے تو بھی اُس کی اشتہا ختم نہیں ہوتی۔ اماں جی، کل ہی کی بات ہے، کھانے کی میز پر پٹژا رکھا تھا، آپ کے بیٹے نے مخمور حالت میں میرے بجائے، اپنی بیٹی کے چہرے کو تھام کے نا زیبا اطوار سے فرمایش کی:
پٹژا کے ساتھ وہ نہیں ہے۔۔۔ وہ؟۔۔ وہ جو سرخ سرخ ہوتی ہے؟۔۔۔ لپ اسٹک۔۔ لپ اسٹک۔۔ شہزادی!۔۔ جا اپنے ہونٹوں پہ اس رنگ کی لپ اسٹک لگا کے آ۔
اماں جی، مجھے بہت ڈر لگا۔ میں نے بیٹی کو اشارہ کیا، کہ اُٹھ جاو، وہاں سے۔۔۔ وہ سہم کے اُٹھی، اور کمرے میں چلی گئی۔ میں اس کے پیچھے  پیچھے گئی، اور اُس سے کہا:
ڈور لاک کے علاوہ چٹخنی  بھی لگا لو، تا کہ دروازہ باہر سے چابی لگانے سے نہ کھل سکے۔ اس وقت تک  دروازہ مت کھولنا، جب تک میں نہ کہوں۔ چاہے صبح کالج سے چھٹی کرنا پڑے، میرے کہے بغیر دروازہ مت کھولنا۔‘‘
ساس نے یہ دُکھڑا سن کے جواب دیا، ’’بیٹیوں کو لے کے میکے چلی جاو۔
’’میرا میکہ مجھے اور میری تین بیٹیوں کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔ ماں جی، آپ کا بیٹا حیوان بن جاتا ہے، مہربانی کیجیے میرے ساتھ آ ٹھیریں۔‘‘ بہو نے التجا کی۔
’’اب تو اسے تمھارے حوالے کر دیا ہے، اب تمھی کو سنبھالنا ہے۔‘‘ ساس نے گویا حل بتایا۔ ’’اپنا آپ کھِلا اس کو، تا کہ تیری تینوں بیٹیوں کو وہ اژدھا نِگل  نہ جائے۔‘‘

میں نے یہ ادھوری کہانی کیوں سنائی آپ کو؟ میں یہ مضمون لکھ رہی تھی، عورتوں کو یہ تاکید کی جاتی ہے، کہ کی شوہر کا دِل کیسے جیتیں، جب کہ کوئی یہ نہیں بتاتا، بیوی کا دِل کیسے جیتا جا سکتا ہے؟ کچھ حصہ لکھ لیا تھا، کہ میرے سامنے فرشتہ کے بہیمانہ قتل اور اس سے پہلے اس پر بیتنے والی قیامت کی خبر آ گئی۔ سب کچھ بودا لگنے لگا، سب کچھ مہمل۔ مجھے یہ واقعہ یاد آ گیا، جو اوپر بیان کیا ہے۔

جس سماج میں حفاظت کرنے والے باپ کے ہاتھوں بیٹیاں محفوظ نہیں، وہاں فرشتہ کی کہانی پہ کیوں رویا جائے، لیکن میں پھر بھی رو پڑی۔ حیوان صفت مرد کواس کی عورت اپنا آپ کھِلا بھی دے، تو بھی اس کی بھوک ہے، کہ نہیں مِٹتی۔ فرشتہ کے لاشے کو نوچنے والے جانوروں سے بد تر وہ انسان نما حیوان ہیں، جنھوں نے اس کو نگل لیا۔

ارد گرد کئی جگہ دیکھا ہے، مردوں کو بہت جلد اپنی بیویاں پرانی لگنے لگتی ہیں۔ کیوں؟ ایسا کیوں ہے؟ کیا مرد یکسانیت سے اُکتا جاتا ہے؟ جی ہاں! تبھی تو مذہب کا سہارا لے کے یہ کہا جاتا ہے، کہ مرد کو ایک نہیں چار چار کی ضرورت پڑتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ عورت کی تمام تر توانائیاں مرد کو رِجھانے پر صرف ہونی چاہیے؟ یہاں مجھے ہندوستانی فلم ’’صاحب، بی بی اور غلام‘‘ یاد آ رہی ہے، جس میں مینا کماری ایک ایسی بیوی کے روپ میں جلوہ گر ہیں، جس کا شوہر بازار کی عورت کا رسیا ہے۔ اسے کے شب و روزعیاشی میں بسر ہوتے ہیں۔ جب کہ ستی ساوتری اپنے شوہر کی راہ تکتی رہتی ہے۔ ایسے میں وہ ایک بار وہ شکوہ  کرتی ہے، تو شوہر کہتا ہے، نہ تم ناچ سکتی ہو، نہ میرے ساتھ بیٹھ کے شراب پی سکتی ہو، یہ کام باہر والی کرتی ہے۔ وغیرہ۔

مینا کماری وہی سب کچھ کرتی ہے، جو اس کے پتی کو بھاتا ہے۔ گانا گاتی ہے، شراب پیتی ہے۔ کچھ دِن تو وہ گھر میں ٹھیرتا ہے، پھر اکتا کے گھر سے باہر کی راہ لیتا  ہے۔ پتنی شکوہ کرتی ہے، کہ یہ کیا؟ وہ جتلاتا ہے کہ ایک سے جی بھر گیا ہے۔ خیر! اس کہانی کا انجام کیا ہوا، یہ جاننے کے لیے آپ فلم دیکھیے۔ ایسی عورت جو سر تاج کی خوشی کے لیے طوائف کی سی ادائیں بھی اپنا لے، تو بھی وہ  مرد کو باندھ کے نہیں رکھ سکتی۔ اُلٹا اپنے آپ پر تہمتیں لینے والی بات ہے، کہ رنڈیوں کی سی بن بیٹھی۔

فرشتہ کے ساتھ یہ سب کیوں ہوا؟ اس کا سنجیدہ جواب ہے، کہ ہم نے نصاب میں کچھ ایسا نہیں پڑھا، جیسا کہ بتایا جاتا ہے، ’’جھوٹ بولنا منع ہے‘‘، ’’نماز پڑھو‘‘، ’’روزہ رکھو‘‘، کیا یہ نہیں پڑھایا جا سکتا کہ ’’عورت کی عزت کرو‘‘؟ ’’ہر بچی قابل احترام ہے‘‘؟  مان لیا کہ فرشتہ کا قاتل کبھی اسکول نہ گیا، ہو لیکن اس کے ارد گرد سبھی تو ایسے نہیں ہوں گے، جن کی تربیت ہی نہ ہوئی ہو؟ ان پڑھے لکھوں میں کوئی تو ایسا ہو گا، جو اپنے ارد گرد ایسے حیوانوں پر نظر رکھے گا، کہ عورت پر، بچیوں پر غلط نظر ڈالے تو وہ سانحے سے پہلے سدِ باب کر سکے؟

میں ایک استاد ہوں۔ ایک بار ایک دس سالہ بچے کی شکایت آئی کہ اس نے اپنی ہم عمر کلاس فیلو کو لو لیٹر لکھا ہے۔ اسے سمجھایا گیا کہ یہ عمر ان باتوں کے لیے نہیں۔ ذرا تحقیق کی تو معلوم ہوا، اس کے ہم عمر بچے دوست معاشقے کے مفہوم سے آشنا ہیں۔ وہ جنسی عمل کے بارے میں جانتے ہیں۔ جب کہ ہمارے یہاں ایسوں کی کمی نہیں، جو کہتے ہیں، اسکول میں بچوں کو جنسی تعلیم نہیں دینا چاہیے۔ ’’جنسی تعلیم‘‘ کا معنی نہ جانے وہ کیا لیتے ہوں۔ اس سے مراد یہ ہے کہ بچوں کو سمجھایا جا سکے کہ کس موقع پر انھیں کب کب کیسا ردِ عمل دینا ہے۔ کسی ناگوار صورت احوال میں کسی بڑے کو کیسے بتانا ہے، تا کہ وہ بڑا رہنمائی کر سکے یا اس کی حفاظت کا سامان کرے۔ نویں دسویں جماعت کے نصاب میں یہ تو لکھا ہے، کہ جنسی عمل کے بعد غسل کا طریقہ کیا ہے، لیکن جنسی عمل کے آداب کیا ہیں، یہ تو سکھایا ہی نہیں گیا۔ زنا کیا ہے، زنا بالجبر کیا ہے، اس کے معاشرے پہ کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں، بچوں کو یہ نہیں پڑھایا جا سکتا، تو غسل کے آداب سکھانے سے کیا مثبت تبدیلیاں آ سکتی ہیں۔

اب کسی بچی یا بچے  کے ساتھ جنسی زیادتی کا ایسا کوئی واقعہ پیش آتا ہے، تو اس کا ذمہ دار کوئی ایک آدھ فرد نہیں ہے، سارے کا سارا معاشرہ ہے۔ اسی طرح محکمہ تعلیم بھی اور ماہرین تعلیم بھی، کہ جن کی تعلیم آدم کی اولاد کو انسان نہیں بنا کے دے رہی۔ وہ میڈیا بھی کہ جس پہ ناچ گانا دکھایا جا سکتا ہے، سینٹری نیپکن کے اشتہار دکھائے جا سکتے ہیں، مانع حمل طریقے سکھائے جاتے ہیں، لیکن انھیں انسان کیسے بننا ہے، یہ سکھانے میں مکمل طور پہ نا کام ہو چکے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).