تمام جنسی درندوں کو ایک کمرے میں بند کر دیں؟


جسٹس فار زینب، جسٹس فار فرشتہ۔
جسٹس فار عظمٰی، جسٹس فار فوزیہ۔
جسٹس فار اقراء، جسٹس فار اسماء۔
کل ملا کر یہی کچھ بچا ہے اور یہی ہو سکتا ہے کہ مزید کچھ کی توقع رکھنا نری بے وقوفی اور سراسر حماقت کے سوا کچھ نہیں۔ ہم ایک ایسی دنیا میں رہ رہے ہیں جہاں تین ماہ، چھ ماہ، تین سال، چھ سال، نو دس گیارہ برس کسی عمر کے بچے محفوظ نہیں۔ مدرسوں سے محلوں تک، گھروں کے کونے کھدرے سے گلیوں بازاروں تک سب کی ایک ہی داستان ہے۔

یوں نہیں بیٹھو، یہ نہیں پہنو، اس وقت باہر نہیں جاؤ، اکیلے نہیں پھرو سمیت بہت کچھ کوڈ آف کنڈکٹ میں شامل ہے بلکہ یہ ہر اس انسان کی ‘جاب ڈسکرپشن’ ہے جس کو کسی مصیبت نما دوسرے انسان کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس سب پہ پورا اترنے کے باوجود بھی آپ محفوظ نہیں ہیں۔

آپ سکول سے واپسی پر اپنی ہی گلی میں کسی سر پھرے لونڈے کا نشانہ بن سکتے ہیں جو آپ کی پانچ گز کی چادر، آٹھ کلو بھاری سکول بیگ کے بیچ سے ہاتھ بڑھائے اور اس لڑکی کی چھاتی دبوچ لے جسے ابھی اپنے جسم میں آتی تبدیلیوں کا صحیح طور ادراک تک نہیں۔ پھر چاہے وہ زندگی بھر پڑھنے لکھنے کے باوجود کسی راستے پہ بھی اکیلی چلتی ہوئی اس خوف پر قابو پانے کی کوشش کرتی رہے کہ پیچھے تو کوئی نہیں آ رہا۔۔۔

آپ کے دین کے دلدادہ اور جنت کے شوقین والدین آپ کو مدرسے بھیجنے پہ مصر ہوں اور وہاں آپ جنسی تشدد کا شکار ہوں تو پھر عمر بھر یہ بات خود سے کہنے سے بھی ڈریں۔

بچے بچیاں تو دور مرغیاں بکریاں ‘کھوتیاں’ بھی نہیں چھوڑتے، ہر جگہ گھوڑے دوڑانے کے شوقین افراد سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ بس ہوسٹس ہو تو خود کو بچانے کی لاکھ کوشش کرو، کسی کے آوارہ ہاتھ کا کیا کر سکتی ہو؟ اگر ستر برس کا بزرگ کچھ اور کرنے سے قاصر ہے تو بلڈ پریشر چیک کراتے ہوئے اپنی انگلی تو آپ کی کلائی پہ پھیر ہی سکتا ہے، معائنہ کرانے آئی اپنی کولیگ کو چومنے والے سے کیسے بچا سکتا ہے؟

سادہ سا حل ڈھونڈنے کے شوقین افراد آپ کو بتائیں گے کہ جلدی شادیاں کرا دو، پھر یہ دوسروں کو نہیں چھیڑیں گے۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا کہ سرٹیفائڈ شادی شدگان بھی یہی سب کرتے پائے جاتے ہیں۔

آپ کے پاس کیا حل ہے؟ بچوں کو آخری حد تک تعلیم و تربیت دیں، باہر جانے سے روک دیں تو گھر میں آنے والوں، رہنے والوں کی خبر رکھیں۔ کیا ہمارے بچے کھیلنا، پڑھنا، لکھنا سب چھوڑ دیں یا ہم ایسے لوگوں کو پکڑ کر ایک جگہ بند کرنا شروع کر دیں جہاں یہ ہاتھ پھیرنے کا اپنا شوق ایک دوسرے پہ پورا کریں۔

کچھ باشعور یا جذباتی یا ضرورت سے زیادہ حساس یا متاثرہ افراد کے لیے ایسی معاشرت میں اپنے بچے کو دنیا میں لانے کا فیصلہ کرنا سب سے مشکل کام ہے۔ سو ان سے یہ سوال پوچھنے چھوڑ دو کہ وہ شادی کب کریں گے، بچے کب پیدا کریں گے، ہو سکتا ہے وہ مڑ کر پوچھ لیں تم لوگوں کی اپنی شادیوں اور بچوں کی داستانوں پہ، کبھی خود بھی دو گھڑی سوچا ہے کہ یہ کیا ہے؟ یا جانتے بھی ہو کہ ہوا کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).