پنجاب کی تقسیم لیکن ملتانی فارمولے کے تحت کیوں؟


پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں بیٹھ کر پنجاب کی تقسیم کا جو فارمولا دیا ہے، اس کو نہ بہاولپورکے عوام اور سیاستدان تسلیم کر رہے ہیں اور نہ ہی تھل (خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ، چینوٹ) میں، ملتانی مخدوم کے اعلان پر خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ تھل کے لوگ اس بات پرسخت نالاں ہیں کہ اب ملتانی اپنے جنوبی پنجاب صوبہ کی خاطر تھل کے ٹوٹے کرنے پر تل گئے ہیں۔

ادھراس فارمولے کا تحریک انصاف کو بھی مستقبل میں قریشی فارمولے کا تھل اور بہاولپور کے سیاسی میدان میں نقصان ہو گا۔ شاہ محمود قریشی کے ملتانی فارمولے کے مطابق پنجاب یوں تقسیم ہو گا کہ جنوبی پنجاب صوبہ۔ بہاول پور، ملتان اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن پر مشمتل ہو گا۔ مطلب ملتانی مخدوم کے فارمولے میں ایک تو بہاولپور صوبے کوایک بیان میں ہضم کر لیا گیا ہے، دوسری طرف تھل کے 7 اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفرگڑھ، جھنگ اور چینوٹ میں سے لیہ اور مظفر گڑھ کے علاوہ باقی 5 اضلاع کو لاہور کی خدمت میں پیش کردیا گیا ہے۔ تھلوچیوں سے پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی گئی ہے۔

شاہ محمود قریشی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں کہ بہاولپور صوبہ بحالی تحریک 1969 سے ون یونٹ کے خاتمے کے بعد سے چلی آ رہی ہے، بہاولپور کے عوام خاص طورپر نواب خاندان نے اس تحریک کے لئے جنرل یحیی خان کے آمرانہ فیصلے کے خلاف اس حد تک احتجاج اور مزاحمت کی تھی کہ دریائے ستلج کا پانی ان کے خون سے سرخ ہو گیا تھا۔ خواتین، بزرگ، جوان اور ریاست بہاولپور کے نواب، شہزادے جیلوں میں چلے گئے تھے، لوگ شہید ہو گئے تھے لیکن اپنے صوبہ بحالی بہاولپور کے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے تھے۔

لیکن ان حقیقتوں کے باوجود داد دیں ملتان کے مخدوم کو کہ انھوں نے بہاولپوری عوام کی اس ساری جدوجہد کو اپنے تئیں ایک پریس کانفرنس میں فارغ کر دیا ہے، جس کو گولی اور طاقت ختم نہیں کر سکی تھی۔ شاہ محمود قریشی نے روایتی سیاستدانوں کی طرح بہاولپور صوبہ بحالی کے خلاف بیان یہ داغا ہے کہ بہاولپور کیونکہ 3 اضلاع پر مشتمل ہے، لہذا یہ ممکن نہیں ہے کہ اس کی صوبائی حیثٰیت بحالی کی جائے۔ اگرراقم الحروف درست ہے تو پچھلی پارٹی جس کو شاہ محمود قریشی داغ مفارقت دے کر تحریک انصاف میں آئے ہیں، اس کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے بھی اسی طرح کا جواب بہاولپور صوبہ بحالی کے مطالبے کے جواب میں دیا تھا، لیکن بہاول پور کے عوام ان کے اس طعنے کے باوجود تسلسل کے ساتھ اپنے موقف پرکھڑے رہے اور 1970 کا الیکشن اسی بہاولپور صوبہ بحالی کے نعرے پر لڑے تھے، اور الیکشن نتیجہ آج بھی موجود ہے کہ بہاولپور کے عوام کیا چاہتے ہیں؟

ادھر جنرل پرویز مشرف کے طویل اقتدار کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز سمیت ساری سیاسی جماعتوں نے پنجاب کو تقسیم کر کے نئے صوبوں کی طرف بڑھنے کا فیصلہ کیا، تو پنجاب اسمبلی میں جو دو قراردادیں پنجاب کی تقسیم کے لئے منظوری کے لئے پیش کی گئی تھیں اور متفقہ طور پر منظور کی گئیں تھیں، ان میں ایک قرارداد جنوبی پنجاب صوبے کی تھی تو دوسری بہاولپور صوبہ بحالی کی تھی۔ مطلب بہاولپور صوبہ بحالی کے مطالبہ کوایک بار پھر عوام کے ایوان نے تسلیم کیا اور وفاق سے مطالبہ کیا کہ بہاولپور صوبہ بحال کیا جائے۔

جیسا کہ راقم الحروف نے پہلے عرض کیا ہے کہ ا بھی تک کوششوں کے باوجود پنجاب کی تقسیم کے تازہ ترین قریشی فارمولے کو بہاولپور، تھل کے لوگوں سمیت دیگر ملحقہ علاقوں جن میں ملتان شامل نہیں ہے، کو ہضم نہیں کر پا رہے ہیں۔ شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کی سنیئر لیڈر شپ میں ہونے کے علاوہ ملتانی سیاست میں ایک اہم لیڈر کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن یہ بھی دیوار پر لکھا سچ ہے کہ شاہ محمود قریشی نے خطے کی عوام کی توقعات کے بر خلاف اسٹینڈ لیا ہے۔

ابھی تک وہ اتنے پاپولر لیڈر نہیں ہوئے ہیں کہ بہاولپور اور تھل کے عوام ان کے ملتانی فارمولے کے تحت پنجاب کی تقسیم قبول کر لیں۔ اس فارمولے میں جو کہ شاہ محمود قریشی نے ملتان میں دیا ہے، اس میں خطے کے مفاد سے زیادہ لاہور کا مفاد واضع ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے۔ شاہ محمود قریشی کا ملتان میں بیٹھ کر بہاولپور صوبے کے مطالبے کو یوں مذاق میں اڑا دینا کہ 3 اضلاع پر صوبہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بہاولپور میں ان کا بیان بڑے رد عمل کا سبب بنا ہے۔

ہو سکتا ہے ایک تھوڑی تعداد نے وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ کے ہیڈ راجکاں سمیت دیگر معاملات میں لسانی بینادوں پر کارروائیوں کے پیچھے ہونے کی وجہ سے ردعمل میں شاہ محمود قریشی کی اس منطق کو تسلیم کیا ہو لیکن بہاولپور کی اکثریت نے ملتانی مخدوم کی طرف سے اس انداز میں بہاول پور کے صوبہ کو رد کرنے کے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ طارق بشیر چیمہ کا کردار بہاولپور صوبہ بحالی تحریک کے لئے فائدہ مند ہونے کی بجائے نقصان دہ ہو رہا  ہے۔

ایک طرف تو بہاولپور صوبہ بحالی کے مخالف ان کے والد چودھری بشیر چیمہ کی طرف سے بہاولپور صوبے کی مخالفت کا بڑے پیمانے پر پرچار کر رہے ہیں اور دوسرا موصوف بہاولپور کے سیاسی میدان میں وہ احترام اور مقبولیت جو کہ نواب صلاح الدین عباسی یا ان کے سیاسی رفقاء فاروق اعظم ملک و دیگر بہاولپوری سیاستدان رکھتے ہیں، وہ ان کو حاصل نہیں ہے۔ شاہ محمود قریشی کے اس پنجاب تقسیم فارمولے کے پیچھے ملتانی چورن ہو یا پھر یہاں کے سیاستدانوں کی تخت لہور اور اسلام آباد کے ساتھ قربتوں کی لمبی داستان ہو لیکن بہاولپور کے عوام اپنے صوبہ بحالی کے لئے جدوجہد کی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔

اتنی آسانی سے یہ سب کچھ نہیں ہو گا، کہ ملتان میں بیٹھ کر قریشی حکم جاری کریں اور بہاولپوری بھیڑ بکریوں کی طرح آگے چل پڑیں۔ پھر اس بات کو راقم الحروف سمجھنے سے قاصر ہے کہ آخر ملتانی طعنہ زنی کر کے بہاولپور کے عوام کو مشتعل کیوں کر رہے ہیں؟ ان کے اس انداز سیاست سے تو یوں لگتا ہے کہ پنجاب کی تقسیم کی راہ میں ملتانی سیاستدان خود رکاوٹ ہیں۔ جہاں بات چیت کرنی ہوتی ہے، وہاں یہ اکٹر جاتے ہیں اور جہاں آواز اٹھانی ہوتی ہے وہاں جی حضوری پر اترتے آتے ہیں۔

ان کو ملتان کے علاوہ دیگر علاقوں کے لوگوں کی محرومیاں ہی نظر نہیں آتی ہیں۔ گیلانی دور میں بھی یہی وتیرہ اپنایا گیا کہ بہاولپور کے ساتھ ڈائیلاگ یا پھر ان کے صوبہ بحالی کی حمایت کی بجائے ان کا مذاق اڑایا جاتا رہا ہے اور اب بھی وہی روش شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس میں دیکھنے کو ملی ہے۔ کیا بہاولپور کے عوام بہاولپور کے 3 اضلاع کو چھے اضلاع میں بدلنے کے خلاف تھے یا پھر حکومتوں اور ریاست نے انہیں اکہتر سال سے مرغیوں کی طرح تین ٹوکروں میں بند رکھا ہے اور ان کو پاکستان کے لئے دی گئی قربانیوں کی سزا دی گئی۔

اب طعنہ زنی بھی وہی لوگ کر رہے ہیں جو کہ آمروں سے لے کر جمہوری ادوار میں اقتدار میں رہے ہیں اور بہاولپورکے احسانات کے بدلے اس کو محرومیوں سے نوازتے رہے ہیں۔ بہاولپور کے ساتھ تو جو قابل مذمت سلوک ملتان کی طرف سے دیکھنے کو مل رہا ہے، اس پر دکھ ہو رہا ہے۔ ادھر تھل کی جو تقسیم قریشی فارمولے میں کی گئی ہے، اس سے واضع ہو رہا ہے کہ ملتانی سیاستدان لہور کے ساتھ ملے ہوئے ہیں اور باقاعدہ گٹھ جوڑ سے اس دھرتی کے لوگوں کو تقسیم کیا جا رہا ہے۔

اب واضح ہو رہا ہے کہ ملتانی پورے خطے کو ڈسٹرب کر کے اپنے اقتدار کی راہ ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ سمجھنے کی بات ہے کہ ایک طرف بہاولپور کے 3 اضلاع کو وہاں کے لوگوں کی مرضی کے برخلاف جنوبی پنجاب میں شامل کرنا چاہتے تو دوسری طرف تھل کے پانچ اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر ”جھنگ اور چینوٹ کو لاہور کو دے رہے ہیں۔ یہاں سوال یہ ہے کہ شاہ محمود قریشی کو کس نے حق دیا ہے کہ وہ تھل کو لاہور اور ملتان کی ذاتی جاگیر سمجھیں اور اپنی مرضی اور منشا کے مطابق تقسیم کریں۔

ملتان کے سیاستدانوں کی سیاست اب تو کھل کر سامنے آ گئی ہے۔ پہلے سرائیکی صوبہ، پھر جنوبی پنجاب متعارف کروایا، اسی طرح پہلے پنجاب اسمبلی میں بہاولپور صوبہ بحالی کے لئے متفقہ قرارداد منظور کروائی اور اب اس کو بہاولپوری عوام کی منشا اور مرضی کے خلاف اس کو آگے لگانا چاہتے ہیں۔ آخرکیوں؟ جمہوریت میں ایسے تو نہیں ہوتا کہ چھوٹے کو رگڑ دو اور بڑے کے پاؤں پڑ جاؤ، جمہوریت تو سب کے لئے برابر سلوک کا درس دیتی ہے۔

اگر ملتان سب کچھ سمیٹ لے گا تو کیا اس کے ارد گرد کے علاقوں خاص طور پر تھل جیسے علاقے کے لوگ مٹی کھائیں گے، ان کو ایک اور اکہتر سال کے بعد بنیادی سہولتیں ملیں گی یا پھر ان کے لئے قیامت کے دن کے انتظار کا حکم ہے؟ آخر کوئی تو وجہ ہے کہ بہاولپوری عوام ملتان میں شامل ہونے پر تیار نہیں ہیں، جونہی ملتان کا نام لیں لوگ دور بھاگتے ہیں۔ ملتانی سیاستدان اس بات پر غور کرنے کی بجائے اور اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی بجائے، خطے اور تحریک انصاف کی سیاست کے لئے مستقبل میں مشکلات پیدا کر رہے ہیں؟

اس بات کا تذکرہ تحریک انصاف کے سینٹرل ڈپٹی سیکرٹری انفارمیشن انجینئر افتخار احمد چودھری سے کیا کہ حضور یہ کون سا ملتانی فارمولا ہے جو کہ نا عوام کے لئے سود مند ہے اور نہ ہی تحریک انصاف کے لئے کوئی نیک نامی کا سبب بنے گا۔ ذرا غورکریں ایک طرف اس طرح کے رویہ اور فارمولے سے بہاولپور کے عوام ناراض ہوں گے تو دوسری طرف تھل کے لوگ جن سے پوچھے بغیر ان کو ٹوٹے کر کے لاہور یا پھر ملتان میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ تبدیلی یہ تو نہیں تھی جس کا وزیر اعظم عمران خان کینٹینر پر کھڑے ہو کر اعلان کرتے تھے۔ جواب میں محترم انجینئر افتخار صاحب نے فاٹا کے خبیر پختون خوا میں انضمام کی صورت میں ہزارہ کے ساتھ کی گئی واردات سے پردہ اٹھایا جو کہ کسی اگلے کالم میں بیان کروں گا۔ مطلب انی مچی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).