کیا غریبوں کی بھی عید ہوتی ہے؟


یہ دنیا بڑی ظالم ہے۔ یہاں پر لوگ ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ میں ایسے لوگوں کو بھی کچلتے جا رہے ہیں۔ جو کبھی ان کی دوڑ میں شامل بھی نہیں ہوئے۔ ایسے لوگوں کی حق تلفی کی جاتی ہے۔ اس دنیا میں مختلف قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ان کی اقسام تو مختلف ہو سکتی ہیں، مگر ضروریات زندگی تقریباً ایک جیسی ہی ہیں۔ جیسا کہ رہنے کے لیے مکان، کھانے کے لیے روٹی اور پہننے کے لیے لباس وغیرہ۔

حساس لوگوں کے لیے اس تقسیم کو ماننا بہت کٹھن اور تکلیف دہ عمل ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے۔ ایک شخص جو ساری زندگی دن رات کی فکر کیے بغیر، بارش، آندھی، طوفان یا تیز دھوپ کی سختی کے باوجود کبھی اپنے فرض سے پیچھے نہیں ہٹا اور روزگار کے لیے محنت کرتا رہا۔ مگر افطاری میں پھل اور پکوڑے سموسے کے لیے بھی پیسے نا کما سکا۔ اور سارا رمضان اپنے بچوں کو افطاری پہ ایک دن بھی گوشت نا کھلا سکا۔

’عید‘ جس کے معنی ہیں، خوشی۔ یہ ایک اسلامی تہوار ہے تو سارا رمضان بلکہ سارا سال نمازیں پڑھنے والا، لوگوں کے ساتھ اچھے معاملات رکھنے والا، اپنا کام ایمان داری سے کرنے والا اور سارا سال کمائی کرنے والا محنت کش بھی عید پر خوش کیوں نہیں ہوتا؟ اپنے بچوں کے لیے نئے کپڑے اور جوتے کیوں نہیں خرید پاتا؟ سارا سال محنت کے باوجود اپنے بچوں کے لیے دو وقت کی روٹی بمشکل کیوں پوری کر پاتا ہے؟ شاید یہ ان لوگوں کی وجہ سے جو زکٰوة کی غیر منصفانہ تقسیم کرتے، غریبوں کے حقوق کو پا مال کرتے ہیں۔ ان کو ان کا جائز حق نہیں دیتے اور اپنے مفاد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور ان کی حق تلفی کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔

میں نے اپنے گاؤں میں عید پر ایسے لوگوں کو بھی دیکھا ہے۔ جو سارا سال اپنے والدین سے سکول کی یونیفارم کے لیے اور جوتوں کے لیے اصرار کرتے۔ لیکن والدین انکار کرتے رہتے۔ قربان جاوں ایسے والدین پر اور ان کی کفایت شعاری پر جو عید پر نئے کپڑوں کے طور پر سکول کی یونیفارم خرید کر دیتے ہیں۔ اور نئے جوتوں کے طور پر سکول کے بوٹ۔ بچوں کی عید بھی ہو جاتی اور سکول کے لیے یونیفارم بھی بن جاتا۔

کبھی غور کرنا کبھی دیکھنا ایسے لوگوں کو جو عید پر زیادہ دکھی اور غم زدہ ہوتے ہیں۔ اپنے ارد گرد بچوں کو نئے کپڑوں اور جوتوں میں ملبوس پا کر ان کی احساس محرومی عروج پر ہوتی ہے۔ عید پر جب بچے رنگ برنگے ملبوسات میں کھلونے خریدتے ہوئے گزرتے ہیں۔ تو اس ماں کے دل پر کیا گزرتی ہو گی۔ جس نے عید پر اپنے بچوں کو نئے کپڑے اور کھلونے دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ کیا کسی شاعر نے خوب کہا ہے:

دوپہر میں وہ اپنے بچوں کو سلا دیتی ہے اکثر
گلی میں پھر کوئی کھلونے بیچنے والا نا آ جائے

لیکن عید پر تو سارا دن کھلونے بیچنے والے گھوم رہے ہوتے ہیں۔ ویسے بھی عید پر بچے کب سوتے ہیں۔ اور ان کی ماں نے تو ان سے وعدہ بھی تو کیا تھا۔ تو بچے تو بچے ہوتے ہیں وہ کب بھولیں گے کہ ان کی ماں نے ان سے عید پر کھلونے دلوانے کا وعدہ کیا تھا۔ خاص طور پر جب ان کی عمر کے بچے ان کے سامنے مختلف قسم کے کھلونے اور کھانے پینے کی اشیا خرید رہے ہوں۔

خدارا عید کا صحیح مطلب سمجھیں۔ اس خوشی کے دن کے موقع پر ایسے لوگوں کو بھی اپنی خوشی میں شامل کریں۔ جو سارا سال خوشی کو ترستے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے نئے کپڑوں اور جوتوں وغیرہ کا اہتمام کریں۔ یہ بھی ہمارے بہن، بھائی ہیں۔ بجائے اس کے کہ عید کے دن ان کو احساس محرومی ہو بلکہ وہ خوش ہوں۔ ان کے لیے بہترین کھانا اور تحائف وغیرہ کا بندوبست کریں۔ جس سے آپ کو بھی دلی راحت، سکون اور خوشی ملے گی۔ اور یہ لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل ہو گی۔ اور یہی صحیح معنوں میں عید ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).